امریکہ کے صدر براک اوباما نے میانمار میں جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی سے جمعہ کو ملاقات کی۔
اس ملاقات کی تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں لیکن یہ ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب میانمار (جسے برما بھی کہا جاتا ہے) میں آئندہ سال انتخابات سے قبل جمہوری اصلاحات کے لیے اس ملک پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
آنگ سان سوچی 2012ء کے انتخابات میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں اور اس وقت سے ان کے حامی اس آئینی ترمیم ے لیے کوشاں ہیں جس سے انھیں آئندہ سال منصب صدارت سنبھالنے کی اجازت مل سکے۔
لیکن سوچی پر میانمار میں روہنگیا مسلمان اقلیت سے روا رکھے جانے والے سلوک سے متعلق واضح موقف نہ اپنانے کی وجہ سے خاصی تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔
صدر اوباما ایک جمعرات کو اس بات پر زور دیا تھا کہ میانمار میں دہائیوں تک رہنے والی فوجی حکومت سے مکمل جمہوریت کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
میانمار کے صدر تھیئن شین سے ہونے والی ایک غیر رسمی ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کے انتخابات آزادانہ اور شفاف ہونے چاہیئں۔
تھیئن شین کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ " ہمیں ادراک ہے کہ تبدیلی بہت مشکل ہے اور یہ ہمیشہ ایک سیدھا راستہ نہیں ہوتا۔۔۔لیکن میں میانمار میں ممکنات کے لیے پرامید ہوں۔"
سیاسی اور انسانی حقوق سے متعلق اصلاحات پر ہونے والی گفتگو سے متعلق اوباما کا کہنا تھا کہ ان کا اور شین کا " ماننا ہے کہ یہ عمل ابھی نامکمل ہے۔"