واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما اور جرمن چانسلر آنگلہ مرکل نے جمعے کے روز ہونے والی ملاقات میں روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تنبیہہ کی کہ اگر روس نے یوکرین کے مسئلے کا سفارتی حل ڈھونڈنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھائے تو روس پر کڑی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔
اس موقع پر صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر رُوسی رہنماؤں نے مشرقی یوکرین میں مداخلت جاری رکھی تو امریکہ اور یورپی یونین روس کے خلاف سفارتی اور معاشی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات اٹھائے گا۔
جرمن چانسلر آنگلہ مرکل نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور جرمنی روس پر نئی پابندیاں عائد نہیں کرنا چاہتے، مگر روس اپنی روش سے باز نہ آیا تو ایسا کرنا ’ناگزیر‘ ہو جائے گا۔
چانسلر مرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب یہ روس پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اپنانا چاہتا ہے۔
ملاقات سے قبل، تجزیہ کاروں کے حوالے سے یہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو میں یوکرین کو اہمیت حاصل رہے گی اور دونوں رہنما رُوس کی یوکرین میں مداخلت اور اس حوالے سے رُوس پر ممکنہ مغربی پابندیوں کے بارے میں بھی تبادلہ ِخیال کریں گے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جے کارنی نے جمعرات کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا، ’اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یوکرین کی صورتحال کے حوالے سے رُوس جنیوا معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے‘۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صدر اوباما اور چانسلر مرکل کی ملاقات سے قبل امریکی اور جرمن عہدیداروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دونوں رہنما روس کی یوکرین میں مداخلت جاری رکھنے کی صورت میں روس کے خلاف ممکنہ کڑی پابندیوں کے بارے میں تبادلہ ِخیال کریں گے، جس کا ہدف روس کی معیشت ہوگی۔
توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ دونوں لیڈر ’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کے معاملے پر بھی گفتگو ہو گی، جس کے تحت چانسلر مرکل کے فون کی نگرانی بھی کی گئی تھی۔ اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد جرمنی اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا تھا۔
اس سے قبل، واشنگٹن آمد کے فوری بعد، جرمن چانسلر آنگلہ مرکل جرمنی کے سفارتخانے گئیں جہاں انہوں نے امریکی سینیٹ کے چند اراکین سے بھی ملاقات کی۔
دونوں رہنماؤں نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔
اس موقع پر صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اگر رُوسی رہنماؤں نے مشرقی یوکرین میں مداخلت جاری رکھی تو امریکہ اور یورپی یونین روس کے خلاف سفارتی اور معاشی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات اٹھائے گا۔
جرمن چانسلر آنگلہ مرکل نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور جرمنی روس پر نئی پابندیاں عائد نہیں کرنا چاہتے، مگر روس اپنی روش سے باز نہ آیا تو ایسا کرنا ’ناگزیر‘ ہو جائے گا۔
چانسلر مرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب یہ روس پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اپنانا چاہتا ہے۔
ملاقات سے قبل، تجزیہ کاروں کے حوالے سے یہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو میں یوکرین کو اہمیت حاصل رہے گی اور دونوں رہنما رُوس کی یوکرین میں مداخلت اور اس حوالے سے رُوس پر ممکنہ مغربی پابندیوں کے بارے میں بھی تبادلہ ِخیال کریں گے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جے کارنی نے جمعرات کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا، ’اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یوکرین کی صورتحال کے حوالے سے رُوس جنیوا معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے‘۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صدر اوباما اور چانسلر مرکل کی ملاقات سے قبل امریکی اور جرمن عہدیداروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دونوں رہنما روس کی یوکرین میں مداخلت جاری رکھنے کی صورت میں روس کے خلاف ممکنہ کڑی پابندیوں کے بارے میں تبادلہ ِخیال کریں گے، جس کا ہدف روس کی معیشت ہوگی۔
توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ دونوں لیڈر ’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کے معاملے پر بھی گفتگو ہو گی، جس کے تحت چانسلر مرکل کے فون کی نگرانی بھی کی گئی تھی۔ اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد جرمنی اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا تھا۔
اس سے قبل، واشنگٹن آمد کے فوری بعد، جرمن چانسلر آنگلہ مرکل جرمنی کے سفارتخانے گئیں جہاں انہوں نے امریکی سینیٹ کے چند اراکین سے بھی ملاقات کی۔