واشنگٹن —
صدر براک اوباما کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے سے چند روز قبل، وائس آف امریکہ کے نامہ نگار میریڈتھ بیول نے امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائیکل اورِن اور امریکہ میں فلسطین کی تنظیمِ آزادی کے اعلیٰ نمائندے مائن راشد اریکات کو انٹرویو کیا ۔ اس انٹرویو میں ان بہت سے امور کے بارے میں سوالات کیے گئے جو مسٹر اوباما کو اسرائیل، مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن میں پیش آ سکتے ہیں ۔
دونوں سفارتکاروں سے پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ اس دورے کے سلسلے میں ان کی ترجیحات اور توقعات کیا ہیں ۔اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے کہا کہ صدارتی دورہ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ اہم ہوتا ہے ۔ ’’صدرِ امریکہ روز روز نہیں آتے ۔ صدر بُش صرف ایک بار اپنے دوسرے عہدِ صدارت کے آخری چھ مہینوں میں آئے تھے۔صدر ریگن کبھی نہیں آئے ۔ ہماری لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ صدر کے اس دورے کی پہلی منزل اسرائیل ہے ۔‘‘
امریکہ میں فلسطین کی تنظیمِ آزادی کے نمائندے مائن راشد اریکات نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی چاہتے ہیں کہ صدر فلسطینی عوام کی مشکلات کو سمجھیں اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان اس تنازع کو جلد ختم کرنے کی ضرورت کا احساس کریں۔
’’صدارت کی پہلی مدت میں صدر اوباما نے اس مسئلے پر کافی وقت اور وسائل صرف کیے۔ بدقسمتی سے، ان کوششوں میں خلل پڑ گیا۔ ہم چاہیں گے کہ امریکہ جو دنیا کی سپر پاور ہے، اس تنازعے کو طے کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔‘‘
اس سوال کے جوا ب میں کہ اگر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کا عمل پھر شروع ہو جائے تو اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں، فلسطینی نمائندے نے کہا ’’فلسطینی سیاسی مذاکرات یا سیاسی عمل جلد از جلد دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہیں ۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ایسے حالات موجود ہوں جن میں مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے ۔یعنی یہ کہ اسرائیل کو اپنے پہلے کیے ہوئے سمجھوتوں اور ذمہ داریوں کا پاس کرنا چاہیئے۔‘‘
اسرائیلی سفیر اورن نے اس سوال کے جواب میں کہا ’’ہم گذشتہ چار سال سے انتظار کر رہے ہیں کہ فلسطینی آئیں اور مذاکرات کریں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ آج پھر امریکہ اور اسرائیل ، پیشگی شرائط کے بغیر تمام بنیادی مسائل پر، جن میں سرحدیں، سیکورٹی، یروشلم، فلسطینی اور یہودی پناہ گزیں، ایک دوسرے کو تسلیم کرناشامل ہیں، فلسطینیوں کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
اگلا سوال یہ تھا کہ یہ دکھانے کے لیے کہ وہ امن کے عمل کے بارے میں سنجیدہ ہیں، اسرائیلی خیر سگالی کے طور پر کیا اقدامات کرنے کو تیار ہیں۔ اسرائیلی سفیر اورن نے کہا کہ ماضی میں ہم نے سینکڑوں روڈ بلاکس اور چیک پوائنٹس کو ہٹانے سے لے کر، دس مہینے کے لیے نئی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے تک بہت سے اقدامات کیےہیں۔ لیکن فلسطینی پھر بھی مذاکرات کے لیے واپس نہیں آئے ۔
فلسطینی کی تنظیمِ آزادی کے نمائندے اریکات نے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ماضی میں خیر سگالی کے بہت سے اقدامات کیے ہیں ۔ ان میں اہم ترین اقدام وہ تھا جب 1988 میں پی ایل او نے دو مملکتوں کا حل اور اسرائیل کے قائم رہنے کے حق کو تسلیم کیا۔ اس وقت، فلسطینیوں نے کہا کہ ہم مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل فلسطینی ریاست کو قبول کرنے پر تیار ہیں جس کا درالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا ۔ ہماری نظر میں یہ مصالحت کا تاریخی اقدام تھا۔
مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی نئی بستیوں کی تعمیر مسلسل جاری ہے۔ اسرائیل اور پی ایل او کے سفارتی نمائندوں سے پوچھا گیا کہ ان بستیوں کی تعمیر سے قیام امن کی کوششوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
پی ایل او کے نمائندے مسٹر اریکات نے کہا ’’ان بستیوں کے انتہائی نقصان دہ اثرات پڑ رہےہیں۔ میرے خیال میں بستیوں اور آباد کاروں کا مسئلہ ، اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے لیے دردِ سر بنتا جا رہا ہے ۔آبادکاروں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے جس کا رویہ جارحانہ ہے، اکثریت کو یرغمال بنا لیا ہے اور وہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ فلسطینی علاقوں کے اندر اسرائیلی بستیوں میں رہنے والے لوگوں کو جو فوائد اور رعایتیں حاصل ہیں، فلسطینی ان سے محروم ہیں ۔‘‘
اسرائیلی سفیر اورن نے بستیوں کی تعمیر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا’’2005 میں ہم نے غزہ کی پٹی سے 21 بستیوں کو توڑ پھوڑ دیا تا کہ امن کا عمل آگے بڑھے ۔ ہمیں اس سے امن نہیں بلکہ حماس کی طرف سے ہزاروں راکٹ ملے ۔ لہٰذا اس تنازعے میں بستیوں کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ فلسطینی ہماری بستیوں کی پالیسی سے خوش نہیں ہیں ۔ ہم اس مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں ۔ ہمارے خیال میں سرحدوں اور سیکورٹی کے وسیع تر مسئلے میں، بستیاں ایک ذیلی موضوع ہیں۔‘‘
اگلا سوال یہ تھا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطین کے صدر محمود عباس اور غزہ کی پٹی میں حماس کے درمیان تصفیے کے کیا امکانات ہیں، اور اگر مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان تقسیم برقرار رہی تو امن کا عمل کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے ۔ اسرائیلی سفیر نے اس سوال کے جواب میں کہا اگر فلسطینی متحد ہوتے تو اس سے مدد ملتی ۔ ہم ایسی صورتِ حال پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ امن قائم کر لیں اور پھر بعد میں غزہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور امن کے تمام فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
پی ایل او کے نمائندے اریکات نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ یہ فلسطین کا داخلی معاملہ ہے اور ہمیں اس بارے میں سخت تشویش ہے ۔ کئی برسوں سے ہم غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے، فتح اور حماس کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ بد قسمتی سے ، معاملات ہماری منشاء کے مطابق آگے نہیں بڑھے ہیں لیکن فلسطینی قیادت اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
ایک اور سوال یہ پوچھا گیا کہ یروشلم کے بنیادی مسئلے کو اس طرح کیسے حل کیا جائے کہ اسے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں، دونوں کی حمایت حاصل ہو ۔ فلسطینی نمائندے اریکات نے اس سوال کا جواب یوں دیا ’’حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں نے یروشلم کے مسئلے کا ایک تخلیقی حل تجویز کیا تھا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں ۔ اس کے برخلاف، اسرائیل یروشلم پر اجارہ داری پر اصرار کرتا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ یروشلم میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں، عربوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں، سب کے مقدس مقامات ہیں۔ اور اگر اسرائیلیوں اپنے اس دعوے پر اصرار کرتے رہے کہ یروشلم صرف اسرائیل کا دائمی دارالحکومت رہے گا، تو ہو سکتا ہے کہ انہیں یروشلم مل جائے، لیکن امن کبھی نہیں ملے گا ۔ یروشلم کا حل صرف یہ ہے کہ وہ دو مملکتوں کا دارالحکومت ہو جن میں ایک فلسطینی ریاست ہوگی، اور دوسری اسرائیل۔‘‘
اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل کی تمام حکومتوں کو موقف یہی رہا ہے کہ یروشلم صرف اسرائیل کا دارالحکومت ہونا چاہیئے۔ یہ ساری دنیا کے یہودیوں کا روحانی مرکز ہے ۔ لیکن امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں تخلیقی اپج اور انصاف کے جذبے سے، یروشلم کے مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔
کیا دو ریاستوں پر مبنی حل کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں پی ایل او کے نمائندے اریکات نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ اسرائیلی جو کچھ کر رہے ہیں، وہ جس تیزی سے نئی بستیاں بسا رہے ہیں، زمینوں پر جبری قبضہ کر رہے ہیں، خاص طور سے یروشلم میں جو اقدامات کر رہے ہیں، اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی عجلت میں ہیں اور ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہی نہ رہے ۔
سفیر اورن نے کہا کہ میرے خیال میں دو ریاستوں پر مبنی حل کے لیے وقت ختم نہیں ہو رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم وقت ضائع کر رہے ہیں جب کہ ہم دو خود مختار ریاستیں قائم کر سکتے ہیں اور اپنے معاشروں کو ترقی دے سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔
اگلا سوال یہ تھا کہ شام میں خانہ جنگی اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام صدر اوباما کی دوسرے کی ترجیحات پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔ اسرائیلی سفیر نے جواب دیا کہ شام اور ایران ان بنیادی مسائل میں شامل ہوں گے جو صدرکے دورے میں زیرِ بحث آئیں گے ۔شام کی صورتِ حال میں ، اسرائیل اور علاقے کے لیے، کچھ مواقع اور خطرات دونوں موجود ہیں۔ یہ موقع ہے بشار الاسد کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا جس نے اپنے ہی ہزاروں شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ کو 70,000 سے زیادہ راکٹ فراہم کیے ہیں۔ دوسری طرف خطرہ یہ ہے کہ شام کا معاشرہ مکمل طور سے انتثار کا شکار نہ ہو جائے، اور وہاں انتہا پسند اسلامی فورسز قدم نہ جما لیں۔ صدر نے کہا ہے کہ ان کا مصمم ارادہ ہے کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل نہ کرنے دیے جائیں ۔ ہمارا مقصد بھی یہی ہے ۔ہم اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہےہیں۔ ہم نے پابندیوں کے پروگرام کی حمایت کی ہے جو توقع سے کہیں زیادہ کامیاب ہوا ہے ۔ بد قسمتی سے ، اس پروگرام سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روکا نہیں جا سکا ہے ۔
مسٹر اریکات نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں پر امریکہ کو تشویش رہی ہے ۔ شام میں انسانی جانوں کا جو نقصان ہوا ہے، وہ بڑا افسوسناک ہے ۔فلسطینیوں کی پوزیشن بڑی نازک ہے کیوں کہ شام میں 600,000 فلسطینی پناہ گزیں موجود ہیں ۔ ہمارا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ شام کے لوگ اپنے لیڈروں کے انتخاب میں اور اپنے مستقبل کے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے، ہم اس کی حمایت کریں گے ۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تو ہمیں ایرانیوں سے براہِ راست کوئی خطرہ نہیں۔ ہم اس تنازع کے پُر امن حل کے حامی ہیں ۔ میرے خیال میں، افغانستان اور عراق کے بعد، امریکہ ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ میرے خیال میں سفارتی تصفیے کی گنجائش اب بھی موجود ہے اور امریکہ نے اس سلسلے میں مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے، وہ دانشمندانہ ہے ۔
آخر میں پی ایل او کے نمائندے اریکات سے پوچھا گیا کہ اب جب کہ صدر اوباما اپنے دورے کی تیاری کر رہےہیں، فلسطینی انہیں کس قسم کے سوالات یا تجاویز بھیجنا چاہیں گے ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم صدر سے یہ کہنا چاہیں گے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ اس تنازعے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ آپ اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی اور اسرائیلی امن اور سلامتی میں ، فلسطینی ریاست میں، اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی ریاست میں، مل جل کر رہیں ۔ لیکن، جنابِ ِ صدر، ہم ایک طویل عرصے سے مصیبتیں اور سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے عوام کو خود اختیاری کا حق دیا جائے، انہیں آزاد اور خود مختار زندگی گذارنے کا حق ملے۔
امریکہ میں اسرائیل کے سفیر اورن نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس دورے کا مقصد ایک پیغام دینا ہے ۔ صدر کی طرف سے اسرائیل کے لوگوں اور علاقے کے لوگوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک ناقابلِ تنسیخ اتحاد قائم ہے، امریکہ اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، وہ صرف ہماری پشت پناہی نہیں کرتا، بلکہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ اور علاقے میں کسی کو اس اتحاد کے ناقابلِ تنسیخ ہونے کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے، اور اس پیغام سے اسرائیلیوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے ۔
دونوں سفارتکاروں سے پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ اس دورے کے سلسلے میں ان کی ترجیحات اور توقعات کیا ہیں ۔اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے کہا کہ صدارتی دورہ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ اہم ہوتا ہے ۔ ’’صدرِ امریکہ روز روز نہیں آتے ۔ صدر بُش صرف ایک بار اپنے دوسرے عہدِ صدارت کے آخری چھ مہینوں میں آئے تھے۔صدر ریگن کبھی نہیں آئے ۔ ہماری لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ صدر کے اس دورے کی پہلی منزل اسرائیل ہے ۔‘‘
امریکہ میں فلسطین کی تنظیمِ آزادی کے نمائندے مائن راشد اریکات نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی چاہتے ہیں کہ صدر فلسطینی عوام کی مشکلات کو سمجھیں اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان اس تنازع کو جلد ختم کرنے کی ضرورت کا احساس کریں۔
’’صدارت کی پہلی مدت میں صدر اوباما نے اس مسئلے پر کافی وقت اور وسائل صرف کیے۔ بدقسمتی سے، ان کوششوں میں خلل پڑ گیا۔ ہم چاہیں گے کہ امریکہ جو دنیا کی سپر پاور ہے، اس تنازعے کو طے کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔‘‘
اس سوال کے جوا ب میں کہ اگر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کا عمل پھر شروع ہو جائے تو اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں، فلسطینی نمائندے نے کہا ’’فلسطینی سیاسی مذاکرات یا سیاسی عمل جلد از جلد دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہیں ۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ایسے حالات موجود ہوں جن میں مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے ۔یعنی یہ کہ اسرائیل کو اپنے پہلے کیے ہوئے سمجھوتوں اور ذمہ داریوں کا پاس کرنا چاہیئے۔‘‘
اسرائیلی سفیر اورن نے اس سوال کے جواب میں کہا ’’ہم گذشتہ چار سال سے انتظار کر رہے ہیں کہ فلسطینی آئیں اور مذاکرات کریں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ آج پھر امریکہ اور اسرائیل ، پیشگی شرائط کے بغیر تمام بنیادی مسائل پر، جن میں سرحدیں، سیکورٹی، یروشلم، فلسطینی اور یہودی پناہ گزیں، ایک دوسرے کو تسلیم کرناشامل ہیں، فلسطینیوں کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
اگلا سوال یہ تھا کہ یہ دکھانے کے لیے کہ وہ امن کے عمل کے بارے میں سنجیدہ ہیں، اسرائیلی خیر سگالی کے طور پر کیا اقدامات کرنے کو تیار ہیں۔ اسرائیلی سفیر اورن نے کہا کہ ماضی میں ہم نے سینکڑوں روڈ بلاکس اور چیک پوائنٹس کو ہٹانے سے لے کر، دس مہینے کے لیے نئی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے تک بہت سے اقدامات کیےہیں۔ لیکن فلسطینی پھر بھی مذاکرات کے لیے واپس نہیں آئے ۔
فلسطینی کی تنظیمِ آزادی کے نمائندے اریکات نے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ماضی میں خیر سگالی کے بہت سے اقدامات کیے ہیں ۔ ان میں اہم ترین اقدام وہ تھا جب 1988 میں پی ایل او نے دو مملکتوں کا حل اور اسرائیل کے قائم رہنے کے حق کو تسلیم کیا۔ اس وقت، فلسطینیوں نے کہا کہ ہم مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل فلسطینی ریاست کو قبول کرنے پر تیار ہیں جس کا درالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا ۔ ہماری نظر میں یہ مصالحت کا تاریخی اقدام تھا۔
مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی نئی بستیوں کی تعمیر مسلسل جاری ہے۔ اسرائیل اور پی ایل او کے سفارتی نمائندوں سے پوچھا گیا کہ ان بستیوں کی تعمیر سے قیام امن کی کوششوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
پی ایل او کے نمائندے مسٹر اریکات نے کہا ’’ان بستیوں کے انتہائی نقصان دہ اثرات پڑ رہےہیں۔ میرے خیال میں بستیوں اور آباد کاروں کا مسئلہ ، اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے لیے دردِ سر بنتا جا رہا ہے ۔آبادکاروں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے جس کا رویہ جارحانہ ہے، اکثریت کو یرغمال بنا لیا ہے اور وہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ فلسطینی علاقوں کے اندر اسرائیلی بستیوں میں رہنے والے لوگوں کو جو فوائد اور رعایتیں حاصل ہیں، فلسطینی ان سے محروم ہیں ۔‘‘
اسرائیلی سفیر اورن نے بستیوں کی تعمیر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا’’2005 میں ہم نے غزہ کی پٹی سے 21 بستیوں کو توڑ پھوڑ دیا تا کہ امن کا عمل آگے بڑھے ۔ ہمیں اس سے امن نہیں بلکہ حماس کی طرف سے ہزاروں راکٹ ملے ۔ لہٰذا اس تنازعے میں بستیوں کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ فلسطینی ہماری بستیوں کی پالیسی سے خوش نہیں ہیں ۔ ہم اس مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں ۔ ہمارے خیال میں سرحدوں اور سیکورٹی کے وسیع تر مسئلے میں، بستیاں ایک ذیلی موضوع ہیں۔‘‘
اگلا سوال یہ تھا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطین کے صدر محمود عباس اور غزہ کی پٹی میں حماس کے درمیان تصفیے کے کیا امکانات ہیں، اور اگر مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان تقسیم برقرار رہی تو امن کا عمل کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے ۔ اسرائیلی سفیر نے اس سوال کے جواب میں کہا اگر فلسطینی متحد ہوتے تو اس سے مدد ملتی ۔ ہم ایسی صورتِ حال پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ امن قائم کر لیں اور پھر بعد میں غزہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور امن کے تمام فوائد حاصل کر سکتا ہے۔
پی ایل او کے نمائندے اریکات نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ یہ فلسطین کا داخلی معاملہ ہے اور ہمیں اس بارے میں سخت تشویش ہے ۔ کئی برسوں سے ہم غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے، فتح اور حماس کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ بد قسمتی سے ، معاملات ہماری منشاء کے مطابق آگے نہیں بڑھے ہیں لیکن فلسطینی قیادت اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
ایک اور سوال یہ پوچھا گیا کہ یروشلم کے بنیادی مسئلے کو اس طرح کیسے حل کیا جائے کہ اسے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں، دونوں کی حمایت حاصل ہو ۔ فلسطینی نمائندے اریکات نے اس سوال کا جواب یوں دیا ’’حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں نے یروشلم کے مسئلے کا ایک تخلیقی حل تجویز کیا تھا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں ۔ اس کے برخلاف، اسرائیل یروشلم پر اجارہ داری پر اصرار کرتا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ یروشلم میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں، عربوں، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں، سب کے مقدس مقامات ہیں۔ اور اگر اسرائیلیوں اپنے اس دعوے پر اصرار کرتے رہے کہ یروشلم صرف اسرائیل کا دائمی دارالحکومت رہے گا، تو ہو سکتا ہے کہ انہیں یروشلم مل جائے، لیکن امن کبھی نہیں ملے گا ۔ یروشلم کا حل صرف یہ ہے کہ وہ دو مملکتوں کا دارالحکومت ہو جن میں ایک فلسطینی ریاست ہوگی، اور دوسری اسرائیل۔‘‘
اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل کی تمام حکومتوں کو موقف یہی رہا ہے کہ یروشلم صرف اسرائیل کا دارالحکومت ہونا چاہیئے۔ یہ ساری دنیا کے یہودیوں کا روحانی مرکز ہے ۔ لیکن امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں تخلیقی اپج اور انصاف کے جذبے سے، یروشلم کے مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔
کیا دو ریاستوں پر مبنی حل کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں پی ایل او کے نمائندے اریکات نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ اسرائیلی جو کچھ کر رہے ہیں، وہ جس تیزی سے نئی بستیاں بسا رہے ہیں، زمینوں پر جبری قبضہ کر رہے ہیں، خاص طور سے یروشلم میں جو اقدامات کر رہے ہیں، اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی عجلت میں ہیں اور ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہی نہ رہے ۔
سفیر اورن نے کہا کہ میرے خیال میں دو ریاستوں پر مبنی حل کے لیے وقت ختم نہیں ہو رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم وقت ضائع کر رہے ہیں جب کہ ہم دو خود مختار ریاستیں قائم کر سکتے ہیں اور اپنے معاشروں کو ترقی دے سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔
اگلا سوال یہ تھا کہ شام میں خانہ جنگی اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام صدر اوباما کی دوسرے کی ترجیحات پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔ اسرائیلی سفیر نے جواب دیا کہ شام اور ایران ان بنیادی مسائل میں شامل ہوں گے جو صدرکے دورے میں زیرِ بحث آئیں گے ۔شام کی صورتِ حال میں ، اسرائیل اور علاقے کے لیے، کچھ مواقع اور خطرات دونوں موجود ہیں۔ یہ موقع ہے بشار الاسد کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا جس نے اپنے ہی ہزاروں شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ کو 70,000 سے زیادہ راکٹ فراہم کیے ہیں۔ دوسری طرف خطرہ یہ ہے کہ شام کا معاشرہ مکمل طور سے انتثار کا شکار نہ ہو جائے، اور وہاں انتہا پسند اسلامی فورسز قدم نہ جما لیں۔ صدر نے کہا ہے کہ ان کا مصمم ارادہ ہے کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل نہ کرنے دیے جائیں ۔ ہمارا مقصد بھی یہی ہے ۔ہم اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہےہیں۔ ہم نے پابندیوں کے پروگرام کی حمایت کی ہے جو توقع سے کہیں زیادہ کامیاب ہوا ہے ۔ بد قسمتی سے ، اس پروگرام سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روکا نہیں جا سکا ہے ۔
مسٹر اریکات نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ عرب دنیا میں آنے والی تبدیلیوں پر امریکہ کو تشویش رہی ہے ۔ شام میں انسانی جانوں کا جو نقصان ہوا ہے، وہ بڑا افسوسناک ہے ۔فلسطینیوں کی پوزیشن بڑی نازک ہے کیوں کہ شام میں 600,000 فلسطینی پناہ گزیں موجود ہیں ۔ ہمارا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ شام کے لوگ اپنے لیڈروں کے انتخاب میں اور اپنے مستقبل کے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے، ہم اس کی حمایت کریں گے ۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تو ہمیں ایرانیوں سے براہِ راست کوئی خطرہ نہیں۔ ہم اس تنازع کے پُر امن حل کے حامی ہیں ۔ میرے خیال میں، افغانستان اور عراق کے بعد، امریکہ ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ میرے خیال میں سفارتی تصفیے کی گنجائش اب بھی موجود ہے اور امریکہ نے اس سلسلے میں مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے، وہ دانشمندانہ ہے ۔
آخر میں پی ایل او کے نمائندے اریکات سے پوچھا گیا کہ اب جب کہ صدر اوباما اپنے دورے کی تیاری کر رہےہیں، فلسطینی انہیں کس قسم کے سوالات یا تجاویز بھیجنا چاہیں گے ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم صدر سے یہ کہنا چاہیں گے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ اس تنازعے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ آپ اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی اور اسرائیلی امن اور سلامتی میں ، فلسطینی ریاست میں، اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی ریاست میں، مل جل کر رہیں ۔ لیکن، جنابِ ِ صدر، ہم ایک طویل عرصے سے مصیبتیں اور سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے عوام کو خود اختیاری کا حق دیا جائے، انہیں آزاد اور خود مختار زندگی گذارنے کا حق ملے۔
امریکہ میں اسرائیل کے سفیر اورن نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس دورے کا مقصد ایک پیغام دینا ہے ۔ صدر کی طرف سے اسرائیل کے لوگوں اور علاقے کے لوگوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک ناقابلِ تنسیخ اتحاد قائم ہے، امریکہ اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، وہ صرف ہماری پشت پناہی نہیں کرتا، بلکہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ اور علاقے میں کسی کو اس اتحاد کے ناقابلِ تنسیخ ہونے کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے، اور اس پیغام سے اسرائیلیوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے ۔