2010ء کے اختتام کے ساتھ صدر اوباما کی صدارت کے دو سال مکمل ہوجائیں گے اور اپنی مدت کے اگلے دوسال میں انہیں اپنے پرورگراموں کو آگے بڑھانے کے لیے سخت کوشش کرنا ہوگی کیونکہ نومبر کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں عوام نے ایوان نمائندگان کا کنٹرول ان کی ڈیموکریٹک پارٹی سے لے کرحزب اختلاف کی ری پبلیکنز پارٹی کو سوپنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
امریکی صدر براک اوباما نے 2010 ءمیں اپنے ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ مگر کانگریس میں موجود ری پبلکنز کی بڑٰی تعداد 2011ء میں ان کے لیے سخت اپوزیشن ثابت ہو گی۔
قانون سازی کے حوالے سے 2010ءصدر اوباما کے لیے ایک کامیاب سال تھا۔ انہوں نے امریکہ کے مالیاتی اداروں پرسخت ریگولیشنز کے قانون پر دستخط کیے۔ میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر سیکیورٹی کومضبوط بنایااور وہ اپنی اہم ترجیحات میں سے ایک یعنی ہیلتھ کیئر کے نظام میں تبدیلیاں لائے۔ مگر جس طرح ملک کی معیشت بہتر نہ ہو سکی اسی طرح صدر کی مقبولیت بھی۔ نومبر میں ووٹروں نے کانگریس کے ایوانِ زیریں کا کنٹرول اپوزیشن یعنی ری پبلکنز کو دے دیا اور صدر اوباما کو ایک پیغام دیا۔
مارک پین ڈیمو کریٹک سٹریٹی جسٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم دو سال تک اختلافات دیکھیں گے یا مقاصد کے حصول کے لیے نرم رویے۔
ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز نومبر کے انتخابات کے نتایج کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ صدر اوباما سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں جماعتوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ مل کر کام کریں۔
مگر قدامت پسند نظریات کی حامل تجزیہ کار ایمی ہومز کہتی ہیں کہ انتخابات کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ لوگوں نے صدر اوباما کو مسترد کر دیا ہے۔ اور یہ کہ یہ 1938ءکے بعد سے سب سے بڑی تبدیلی ہے اور ووٹرز نے کہا ہے وہ ہر چیز پر حکومت کےبڑھتے ہوئے کنٹرول کے خلاف ہیں۔
صدر اوباما کو اپنے پاس کردہ ہیلتھ کیئر ریفارم بل کے لیے 2011ءمیں سخت مقابلے کا سامنا ہو گا۔ ری پبلکنز اس قانون کو بدلنا چاہتے ہیں اور کانگریس میں ان کی نئی اکثریت اور سینٹ میں بڑی اقلیت صدر اوباما کے ماحولیاتی تبدیلوں اور امیگریشن کے بل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
مارک پین نے وسط مدتی انتخابات میں ہونے والی شکست کے بعد صدر بل کلنٹن کو 1994ء کا انتخاب جیتنے میں مدد دی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر صدر اوباما معیشت پر توجہ دیں۔ بے روزگاری کم کرتے ہیں اور معتدل پالیسیاں اپناتے ہیں تو وہ جیت سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر امریکی انہیں پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں۔
ایمی ہومز بھی یہ کہتی ہیں کہ اگر اگلے دو سال میں صدر اوباما بل کلنٹن کی طرح ایسی پالیسیاں اپناتے ہیں جو صرف بائیں بازو کی نہیں بلکہ دائیں بازو کی بھی ترجمانی کرتی ہوں تو وہ کچھ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
مارک پین، ایمی ہومز اور بہت سے دوسرے سیاسی تجزیہ کاریہ تسلیم کرتے ہیں کہ سیاست کے میدان میں دو سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔