رسائی کے لنکس

قومی سلامتی صدر اوباما کی اولین ترجیح


قومی سلامتی صدر اوباما کی اولین ترجیح
قومی سلامتی صدر اوباما کی اولین ترجیح

اب امریکہ کے صدر باراک اوباما اپنے عہدے کا دوسرا سال شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، ان کی ترجیحات کی فہرست میں قومی سلامتی کو پہلا مقام حاصل ہو گیا ہے

قومی سلامتی کے امور کو مسٹر اوباما کے ایجنڈے میں مرکزی حیثیت مِل گئی ہے۔ وہ ان ناقدین کو جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے کرسمس کے روز ڈیٹرائٹ جانے والے ہوائی جہاز کو بم سے اڑانے کی ناکام کوشش کے بعد ضروری اقدامات کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے کہا ’’مجھے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اس میں زیادہ دلچسپی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں تا کہ ہم زیادہ محفوظ ہو سکیں کیوں کہ آخرِ کار ہر چیز کے لیے میں ہی ذمہ دار ہوں۔ صدر کی حیثیت سے یہ میرا مقد س فریضہ ہے کہ میں اپنے ملک اور اپنے عوام کی حفاظت کروں اور اگر ہمارا نظام ٹھیک کام نہیں کرتا تو اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔‘‘

ریپبلیکنز بلکہ چند ڈیموکریٹس کو بھی اعتراض تھا کہ ان کے خیال میں دہشت گردی کے ناکام حملے کے بعد انتظامیہ نے خاطر خواہ اور فوری کارروائی نہیں کی۔ ریاست ایریزونا کے ریپبلیکن سینیٹرجون کیل Jon Kyl نے اتوار کے روز فاکس نیوز پر کہا کہ صدر کو دہشت گردی کے خلاف زیادہ سرگرمی سے اپنے عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ انھوں نے کہا’’اور صدرجب یہ کہتے ہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں تو پھر انہیں فوری توجہ کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور اپنے لیے کام کرنے والوں کو ہدایت کر نی چاہیئے کہ وہ اسے جنگ ہی سمجھیں اور جس قدر انٹیلی جینس انھیں مل سکتی ہو اسے جمع کریں۔‘‘

صدر اوباما کے عہدے کی پہلی مدت کے دوران ان کی بیشتر توجہ ملکی معاملات، معیشت، بنکوں اور کار بنانے والی کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور علاج معالجے کی سہولتوں کے نظام کی اصلاح پر رہی۔

ری پبلیکنز نے متحد ہو کر ان کے داخلی ایجنڈے کی مخالفت کی، اگرچہ ان میں سے بہت سوں نےصدر اوباما کے مزید 30 ہزار مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کے فیصلے کی حمایت کی ۔

لیکن دہشت گردی اور سکیورٹی کے مسائل ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں اور یوں اس سال صدر کو نئے سیاسی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے لیری سباتو Larry Sabato کہتے ہیں’’اس پورے جدید دور میں ریپبلیکنز کے بارے میں یہ تاثر رہا ہے کہ قومی دفاع اور قومی سکیورٹی کے شعبوں میں وہ زیادہ مضبوط ہیں۔ ڈیموکریٹس کو قومی دفاع اور قومی سلامتی میں کمزور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میں ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ تاثرات کبھی صحیح ہوتے ہیں اور کبھی غلط۔ لیکن ویتنام کی جنگ کے بعد سے یہ تاثرات لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو گئے ہیں۔‘‘

سیکیورٹی پر اضافی توجہ ایسے وقت میں دی جا رہی ہے جب امریکی کانگریس علاج معالجے کے نظام میں اصلاحات کو آخری شکل دینے کے لیے مذاکرات کی تیاری کر رہی ہے ۔ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں ہیلتھ کیئر میں اصلاح کا قانون صدر کے دستخط کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیاسی ماہرین کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ ہیلتھ کیئر کے قانون کی منظوری سے امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔

واشنگٹن میں Bipartisan Policy Center کے میٹ ڈالک Matt Dallek کا خیال ہے کہ صدر اوباما کو اس سے زبردست سیاسی فائدہ ہوگا اگرچہ اس کا امکان نہیں کہ یہ سیاسی فائدے اس سال وسط مدتی انتخابات میں ظاہر ہو جائیں۔ لیکن 2012ء کے انتخاب میں اور صدر کے تاریخی ورثے کے لیے یہ یقیناً فائدے مند ہوگا۔ لیکن بعض دوسرےسیاسی ماہرین کو اس سے اختلاف ہے ۔ اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز کے واشنگٹن بیورو کے چیف ٹام ڈی فرینک Tom Defrank کہتے ہیں کہ علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کی بحث نے ملک بھر کے قدامت پسند عوام کو متحد کر دیا ہے جو ہیلتھ کیئر بل کے اخراجات اور اس کے وسیع دائرہ کار کے خلاف ہیں اور اس سے نومبر میں ریپبلیکنز کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کار لیری سباتوکہتے ہیں کہ اس سال صدر کے سیاسی مستقبل اور امریکی کانگریس میں ریپبلیکنز کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ملک کی اقتصادی حالت اور بے روزگاری کی شرح پر ہو گا۔ اوباما کی ذاتی مقبولیت، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا ہوتا ہے اور بے روزگاری کی شرح اور اقتصادی حالت یہ تمام عوامل نومبر کے انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔

تاریخی اعتبار سے نئے صدور کو ہمیشہ اپنے پہلے وسط مدتی انتخاب میں نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ریپبلیکنز نے ایوان نمائندگان کا کنٹرول حاصل کر لیا یا اگر ڈیموکریٹک اکثریت میں نمایاں کمی ہو گئی تو اس سے صدر کی قانون سازی کی صلاحیت بہت بری طرح متاثر ہو گی اور یہ وہ وقت ہو گا جب وہ اپنی2012ء کی صدارتی مہم کی تیاری کر رہے ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG