امریکہ کے صدر براک اوباما نے بالٹک کے لیے مزید طیارے بھیجنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے یہ اعلان ایسٹونیا کے دارالحکومت ٹالین میں بدھ میں ایک نیوز کانفرنس میں کیا۔
امریکی صدر یورپ کے چار روزہ دورے پر ہیں جہاں وہ یوکرین میں روس کے کردار سے خطے میں کشیدگی کے تناظر میں اپنے نیٹو اتحادیوں کو امریکہ کی بھرپور حمایت کا یقین دلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنی فضائیہ کے مزید یونٹس اور طیارے بالٹک میں بھیجے اور ان کے بقول ایسٹونیا کا اماری فضائی اڈہ ان فورسز کے اڈے کے لیے بہترین جگہ ہے۔
میزبان صدر ٹوماس ہینڈرک الویس کے ہمراہ پریس کانفرنس میں صدر اوباما نے اس خطے میں پہلے سے موجود امریکی عسکری وسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو کے چارٹر کے تحت اتحاد کا مشترکہ دفاع امریکہ کی ذمہ داری ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کے تمام رکن ممالک کو بھی دفاعی اخراجات میں اپنا جائز حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ اتحاد کو مزید فروغ دیا جا سکے۔
بدھ کو صدر اوباما اسٹونیا کے دارالحکومت میں اسٹونیا، لیٹویا اور لیتھوینا کے صدور سے ملاقات کریں گے۔ روس کی سرحد سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ٹالین میں ہونے والی ملاقات کا تناظر یوکرین میں روس کی فوجی مداخلت اور بالٹک ریاستوں کو درپیش ممکنہ روسی خطرات ہیں۔
صدر کے مطابق بالٹک مذاکرات کا مقصد تین سابق روسی ریاستوں پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ "ہم معاہدے میں اپنی ذمہ داریوں کے تناظر میں جو کہتے ہیں اس کا پاس کرتے ہیں۔"
جمعرات کو اوباما نیٹو کے 27 رکن ممالک کے سربراہان کے ہمراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس میں کئی ماہ سے روسی سرحد کے قریب روس نواز علیحدگی پسندوں سے نبردآزما یوکرین کے لیے مغرب کی واضح حمایت کا اظہار ہو گی۔
ویلز میں ہونے والی کانفرنس کی توجہ کا مرکز مشرقی یورپ میں نیٹو فورسز کی سرعت کے ساتھ تعیناتی کی استعداد بارے تجاویز ہوگا۔ یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو بھی اس میں شرکت کریں گے۔
روس نے اپنی سرحد کے قریب نیٹو فورسز کی ایسی کسی موجودگی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے منگل کو کہا تھا کہ وہ اس تناظر میں اپنی فوجی حکمت عملی کا بھی جائزہ لے گا۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ نیٹو میں شمولیت کے لیے یوکرین کی کوششوں سے مشرقی یوکرین میں جاری کشیدگی کو ختم کرنے کی کاوشیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
لاوروف کے اس بیان سے ایک روز قبل یوکرین، روس، علیحدگی پسند تحریک اور آرگنائزیشن فار سیکورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ کے درمیان برسلز میں ملاقات ہوئی تھی تاکہ کسی معاہدے پر پہنچا جا سکے۔
علیحدگی پسندوں نے روسی بولنے والے علاقوں کی مکمل خودمختاری کا اپنا مطالبہ چھوڑ دیا ہے۔ نمائندوں کا کہنا تھا کہ وہ ان علاقوں میں زیادہ خودمختاری دیے جانے پر یوکرین کی جغرافیائی سالمیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔
اس پر کیئف کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔