امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے مجوزہ دورۂ امریکہ کے دوران ان سے ملنے سے اس لیے انکار کیا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں اسرائیل میں عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل ایسی ملاقات نامناسب ہوگی۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کا رواں سال مارچ میں ہونے والا مجوزہ دورۂ امریکہ 'وہائٹ ہاؤس' اور کانگریس کے ری پبلکن ارکان کے درمیان گزشتہ کئی روز سے وجۂ نزاع بنا ہوا ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے روایات کے برخلاف 'وہائٹ ہاؤس' اور کانگریس کے ڈیمو کریٹ ارکان کو اعتماد میں لیے بغیر ہی اسرائیلی وزیرِاعظم کو کانگریس سے خطاب کی دعوت دیدی ہے جسے انہوں نے قبول بھی کرلیا ہے۔
لیکن بینجمن نیتن یاہو کے اس مجوزہ خطاب کی تاریخ کے دو ہفتے بعد اسرائیل میں عام انتخابات منعقد ہونا ہیں جن میں اسرائیلی وزیرِاعظم کی جماعت بھی حصہ لے رہی ہے۔
اسرائیلی عام انتخابا ت سے عین قبل وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نیتن یاہو کو دورۂ امریکہ اور کانگریس سے خطاب کی دعوت کو بعض حلقے عام انتخابات میں ان کی مدد کرنے اور رائے عامہ کو ان کے حق میں ہموار کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
'وہائٹ ہاؤس' پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ اگر نیتن یاہو مارچ میں امریکہ آئے تو صدر براک اوباما ان سے ملاقات نہیں کریں گے۔
نشریاتی ادارے 'سی این این' نے صدر براک اوباما کے ریکارڈ کیے جانے والے ایک انٹرویو کے مندرجات بدھ کو جاری کیے ہیں جن میں امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ ا نتخابات سے قبل اسرائیلی وزیرِاعظم سے ملاقات کو "نامناسب" خیال کرتے ہیں۔
صدر اوباما کے بقول انہوں نے نیتن یاہو سے ملنے سے اس لیے انکار کیا ہے کہ کیوں کہ امریکہ کی عام پالیسی یہ رہی ہے کہ صدرِ امریکہ ایسے کسی سربراہِ مملکت سے نہیں ملتا جس کے اپنے ملک میں دو ہفتے بعد عام انتخابات ہونے والے ہوں۔
امریکی صدر نے انٹرویو میں وضاحت کی کہ اس سے قبل بھی وہ امریکہ کے کئی قریبی اتحادی ملکوں کے سربراہان کے ساتھ انہی وجوہات کے باعث ملاقاتوں سے انکار کرچکے ہیں۔
صدر اوباما نے 'سی این این' کو بتایا کہ برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے اسی وجہ سے اپنا حالیہ دورۂ امریکہ برطانیہ کے عام انتخابات سے بہت پہلے کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ امریکہ برطانوی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم امریکی صدر کے اس واضح موقف اور مجوزہ دورے پر امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان واضح اختلافات کے باوجود اسرائیلی وزیرِاعظم نے امریکہ جانے اور کانگریس سے خطاب کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
اتوار کو اپنے ایک بیان میں بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کے اپنے مجوزہ دورے اور کانگریس سے خطاب کی دعوت قبول کرنے کو اپنی "اخلاقی ذمہ داری" اور "ضروری حکمتِ عملی" سمجھتے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا تھا کہ مجوزہ دورے میں ان کی ترجیح امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری تنازع پر ایسا کوئی سمجھوتہ نہ کریں جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے۔