حکومت شام کی طرف سےسیاسی مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائی کے بعد امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے شام کے صدر بشار الاسد کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسٹر اسد اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں۔
اُنھوں نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے شام کے خلاف نئی تعزیرات کا اعلان کیا، تاکہ مسٹر اسد کی حکومت کی معاشی طور پر مزید تنہا کیا جاسکے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین نے بھی مسٹر اسد پرزور دیا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان سے کچھ ہی دیر بعد امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ شام میں جمہوریت کے عبوری دور کا آغاز ہوگیا ہے اور وقت آگیا ہے کہ مسٹر اسد ’راستے سے ہٹ جائیں‘۔
حکومت مخالف رائے رکھنے کے حق کے خلاف ظالمانہ کارروائی کرنے پر مسٹر اسد کو بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔
تاہم، جمعرات کوامریکہ نے باضابطہ طور پر پہلی بار اُن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
شام کے بارے میں امریکہ کے مؤقف میں یہ تبدیلی ایسے وقت آئی ہے، جب ایک دِن بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حکومتِ شام کےاختیار کردہ حربوں پر ایک رپورٹ کی سماعت کرنے والی ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق ِانسانی کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ مخالفین کے خلاف پُر تشدد کارروائی انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔
بائیس صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اقوام ِمتحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے سربراہ، نوی پِلے کی طرف سے جاری ہوئی ہے، جِس کے ایک ہی روز بعد وہ سلامتی کونسل کو ایک بریفنگ دینے والی ہیں۔
متوقع طور پر، پِلے سلامتی کونسل سے یہ مطالبہ کرنے والی ہیں کہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے پر شام کا معاملہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے حوالے کیا جائے۔
اُن کے دفتر سے جاری ہونے والی اِس رپورٹ میں شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملوں کا حوالہ دیا گیا ہے جِن میں مشاق نشانے باز، فضائی طاقت کا استعمال اور دیگر فوجی اقدامات شامل ہیں۔
بدھ کے روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے مسٹر اسد کو بتایا کہ حکومت کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے تشدد کا استعمال اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں سے متعلق موصول ہونے والی رپورٹوں نے اُنھیں چونکا کر رکھ دیا ہے۔
مسٹر بان نے ٹیلی فون پر مسٹر اسد کے ساتھ گفتگو کی، جنھوں نے کہا کہ فوجی اور پولیس کارروائیاں رک گئی ہیں۔