شام میں جاری پرتشدد واقعات کی تحقیقات کے لیے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا ایک خصوصی اجلاس پیر کو منعقد ہورہا ہے۔
اجلاس کونسل کے 24 رکن ممالک کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے جن میں تمام چارعرب ممالک ،اردن، کویت، قطر اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔
مذکورہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب اقوامِ متحدہ کا ایک وفد صورتِ حال کی تحقیقات کے لیے شام کے دورے پر ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز شام کے صدر بشار الاسد نے سیاسی بے چینی کو کچلنے کے لیے کی جانے والی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی ممالک کی جانب سے ہونے والی تنقید ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کو اتوار کی شب دیے گئے ایک طویل انٹرویو میں صدر الاسد نے دعویٰ کیا کہ ان کی افواج پانچ ماہ قبل شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے خلاف کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔
شام کے صدر نے کہا کہ انہیں احتجاجی تحریک کے حوالے سے "کوئی پریشانی" لاحق نہیں۔ انہوں نے شام کے خلاف کسی بھی بیرونی فوجی کارروائی کے خطرناک نتائج برآمد ہونے کا بھی انتباہ دیا۔
امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی طاقتیں صدر الاسد کی اقتدار سے رخصتی کا مطالبہ کرچکی ہیں۔ تاہم صدر نے اپنے انٹرویو میں ملک میں اصلاحات نافذ کرنے کے منصوبوں کو دہراتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شام کی قومی سمبلی کے آئندہ انتخابات چھ ماہ میں منعقد ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ شام میں نئی سیاسی جماعتوں کے قیام کے قانون کو آئندہ چند روز میں حتمی شکل دے دی جائے گی جس کے بعد نئی سیاسی جماعتیں قائم کرنے کے خواہاں افراد کو اس ضمن میں ایک کمیٹی کے پاس درخواستیں دائر کرنے کے لیے 45 روز کا وقت دیا جائے گا۔
صدر الاسد نے مزید کہا وہ اپنے ملک کی اندرونی صورتِ حال کے حوالے سے پڑوسی ملک ترکی کے ارادے جاننے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شام کسی کی جانب سے بھی "ایک استاد" جیسا کردار قبول نہیں کرے گا۔
ترکی صدر الاسد پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف جاری فوجی کارروائی ختم کردیں تاہم ترک حکام نے شام کے صدر سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کو قبل از وقت قرار دیا ہے۔