امریکہ کے صدر براک اوباما اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن آئندہ ہفتے ملاقات کریں گے جس میں امریکی حکام کے بقول یوکرین اور شام کی صورتِ حال پر گفتگو کی جائے گی۔
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ملاقات کی درخواست روسی صدر نے کی ہے جسے صدر اوباما نے منظور کرلیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات پیر کو نیویارک میں ہوگی جہاں وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوں گے۔ نیویارک میں قیام کے دوران دونوں صدور کی کئی عالمی رہنماؤں اور سربراہانِ مملکت سے ملاقاتیں پہلے سے طے ہیں۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی اہلکار نےبتایا کہ یوکرین اور شام کی صورتِ حال اور روس اور امریکہ کے درمیان موجود اختلافات کے باوجود صدر اوباما سمجھتے ہیں کہ روسیوں کے ساتھ اعلیٰ سطحی روابط کے ذریعے تنازعات کے حل کی کوشش کی جانی چاہیے۔
امریکی اہلکار کے بقول صدر اوباما موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ یوکرین کی صورتِ حال پر گفتگو کریں گے جس کا مرکزی نکتہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ روس، یوکرین میں جنگ بندی کے بیلاروس میں طے پانے والے معاہدے کی پاسداری کرے۔
دریں اثنا روسی صدر کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے بھی صدر اوباما اور صدر پیوٹن کے درمیان ملاقات کی تصدیق کردی ہے۔
روسی ترجمان نے جمعرات کو ماسکو میں صحافیوں کو بتایا کہ صدر پیوٹن پیر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور امریکی صدر اور جاپانی وزیرِاعظم شینزو ایبے سے ملاقاتیں کریں گے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ امریکی اور روسی صدور کے درمیان ملاقات پیوٹن کے جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے یا بعد ہوگی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان آخری بار گزشتہ سال نومبر میں بیجنگ میں ایشیا اکنامک سمٹ کے موقع پر بالمشافہ گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک دونوں صدور کم از کم تین بار ٹیلی فون پر بات چیت کرچکے ہیں۔
گزشتہ سال یوکرین کا بحران سنگین ہونے اور یوکرین کے علاقے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد امریکہ اور روس کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے تھے جو تاحال معمول پر نہیں آسکے ہیں۔
یوکرین میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک اور اسے حاصل مبینہ روسی مدد کے ردِ عمل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والی دراڑ مزید گہری ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے شام میں روس کی فوجی نقل و حرکت میں اضافے کی اطلاعات اور شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی کے روسی فیصلے کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔