امریکہ کے صدر براک اوباما نے تشدد کے لیے استعمال ہونے والے اسلحے کی آسان دستیابی پر قابو پانے کے نامکمل ایجنڈے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے، کانگریس سے کہا ہے کہ وہ بچوں کو اس تشدد سے بچانے کے لیے اقدام کرے۔
بقول صدر ’’ہم جانتے ہیں کہ تشدد کی ہر کارروائی کو روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن، اگر ہم ایک کو بھی روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو یہ بات اہمیت کی حامل ہو گی‘‘۔
صدر کا یہ سوال اُن قانون سازوں کے لیے تھا جو، بقول اُن کے ’’اسلحے کے زور پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے اب تک کوئی اقدام اٹھانے میں کامیاب نہیں رہے‘‘۔
صدر اوباما نے تین برس قبل ایک کمیشن قائم کرنے کے لیے ایوان کے دونوں اطراف کو مدد کے لیے کہا تھا، تاکہ قانون سازی کی جائے، اور ’’اسلحے کے ہر خریدار کے پس منظر کی پڑتال کی جا سکے‘‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ اس اقدام کی 90 فیصد امریکی عوام حمایت کرتے ہیں اور ’’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘‘ کے اکثر اراکین بھی اس کے حامی ہیں۔ لیکن، گن لابی اس کے خلاف متحرک ہوئی اور سینیٹ نے اس قانون سازی کو روک دیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے اسٹاف کو ہدایت جاری کی ہے کہ ’’اسلحے کے تشدد کی روک تھام کے لیے کسی نئے اقدام کا جائزہ لیں‘‘ اور یہ کہ وہ منگل کو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے، اٹارنی جنرل لوریتا لِنچ سے بھی ملاقات کر رہے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ انھیں والدین، اساتذہ، بچوں اور بندوق کے ذمہ دار مالکان کی جانب سے خطوط موصول ہوئے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آئین کی دوسری ترمیم انھیں اسلحہ رکھنے کے حق کی ضمانت دیتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اُن کے اِس نکتے سے بھی متفق ہیں کہ چند غیر ذمہ دار عناصر کو، جو مہلک پریشانی کا باعث بنتے ہیں، علیحدہ کر کے، عوام کے اس حق کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔