امریکہ کے اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر براک اوباما نے ایک خفیہ حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت افغانستان میں موجود امریکی فوجی 2015ء تک جنگی کارروائیوں میں براہ راست حصہ لے سکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے بعد کم از کم ایک سال تک امریکہ کے فوجی براہ راست لڑائی کے مشن میں حصہ لیں گے۔ خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق یہ فیصلہ حالیہ ہفتوں میں وائٹ ہاؤس میں سکیورٹی سے متعلق ہونے والے اجلاسوں میں کیا گیا۔
رواں سال مئی میں صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ امریکہ آئندہ سال سے افغانستان میں لڑائی کے مشن میں حصہ نہیں لے گا جب کہ افغانستان میں 2014ء کے بعد تعینات رہنے والے 9,800 امریکی فوجیوں کا مقصد افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور القاعدہ کی باقیات کا خاتمہ ہو گا۔
صدر اوباما کی طرف سے نیا حکم نامہ امریکی فورسز کو یہ اجازت دے گا کہ وہ امریکی فوج یا افغان حکومت کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے طالبان اور دیگر گروپوں کے خلاف کارروائی کر سکیں۔
نئے اجازت نامے کے تحت لڑائی میں مصروف افغان فورسز کو امریکہ کی فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہو سکے گی جب کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں میں کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر امریکی فوجی بھی اُن کا ساتھ دے سکیں گے۔
لیکن اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی خبر میں یہ نہیں بتایا کہ حکمت عملی میں اس تبدیلی کی وجہ سے کیا افغانستان میں 2014ء کے بعد تعینات رکھے جانے والے فوجیوں کی تعداد پر بھی کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔
اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر اوباما کی طرف سے یہ فیصلہ اس بحث کے بعد سامنے آیا جس میں امریکی محکمہ دفاع ’پینٹاگان‘ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ فوج کو افغانستان میں اپنا باقی ماندہ مشن مکمل کرنے کی اجازت دی جائے۔
رواں سال 30 ستمبر کو افغانستان اور امریکہ کے عہدیداروں نے دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجی رہ سکیں گے۔
اس معاہدے پر دستخط اشرف غنی کے منصب صدارت سنبھالنے کے ایک روز بعد کیے گئے، سابق صدر حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد افغانستان کے امریکہ سے تعلقات میں تناؤ بھی دیکھا گیا۔
دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے بعد توقع ہے کہ 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد نیٹو کے 12 ہزار فوجی وہاں رہیں گے جن میں سے 9,800 امریکی فوجی ہوں گے۔