امریکہ کے صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے ریاست اوریگن کے ایک کالج میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے آٹھ طلبا اور ایک تربیت کار کے لواحقین سے ملاقات کی ہے۔
ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو یہ "راہ تلاش کرنا ہو گی کہ کیسے ہم ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکیں۔"
لیکن ان کے بقول "آج کا دن ان خاندانوں، ان کے دکھ اور ان کے لیے جو محبت ہم محسوس کرتے ہیں اس بارے میں ہے۔"
اوباما جب روزبرگ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، پہنچے تو اسلحے کے حامیوں پر مشتمل ایک ہجوم نے ان کے خلاف کتبے اٹھا رہے تھے جن پر "اوباما گھر جاؤ" تحریر تھا۔
اس قدرے قدامت پسند چھوٹی آبادی کے لوگ اسلحہ رکھنے کے حق میں ہیں اور انھیں صدر اوباما کی طرف سے اسلحہ کی روک تھام (گن کنٹرول) سے متعلق سخت موقف ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔
صدر نے ریاست اوریگن کا اپنا چار روزہ دورہ شروع کیا ہے جس میں انھوں نے فائرنگ سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے بھی ملاقات کی۔
اس دورے سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ "اسلحے کے حامیوں کے خوف کا کوئی علاج نہیں۔"
امریکہ میں کچھ عرصے سے مختلف مقامات پر فائرنگ کے ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں قابل ذکر جانی نقصان ہو چکا ہے۔
اسی تناظر میں صدر شہریوں کے اسلحہ خریدنے یا اپنے پاس رکھنے سے متعلق سخت قوانین بنانے کی وکالت کرتے ہیں جسے بعض حلقوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔