امریکہ کی پہلی مسجد کے دورے کے بعد اپنے خطاب میں صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ’’ہم امریکی ایک ہی کنبہ ہیں‘‘، جب کہ، ’’اکثر‘‘ امریکی غلط طور پر اسلام اور دہشت گردی کو ایکساتھ نتھی کرتے ہیں۔
بدھ کے روز بالٹی مور کی مسجد الرحمٰن کی اسلامک سوسائٹی سے خطاب میں صدر نے کہا کہ ’’بہت ہی قلیل لوگوں کے فعل‘‘ کا الزام پوری مسلمان برادری پر دھر دیا جاتا ہے، ’’جو بات درست نہیں‘‘۔
اس سے قبل، صدر نے راؤنڈ ٹیبل اجلاس میں شرکت کی، جس دوران اُنھوں نے سوسائٹی کے ارکان سے تفصیلی گفتگو کی جس میں اُنھوں نے بالمشافیٰ مسلمان اکابرین اور نمائندوں کے احساسات اور تشویش سے آگہی حاصل کی۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس ملک میں ’’مسلمانوں کے خلاف ایسے ناقابلِ معافی تاثر کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
صدر نے کہا کہ اسلام ’امن، ہمدردی اور مثبت جذبات کا مذہب ہے، جب کہ حضرت اہراہیم (علیہ السلام) یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں یکساں طور پر متبرک مقام کے حامل ہیں۔
امریکی صدر نے بتایا کہ صدر جیفرسن اور جان ایڈمز اپنے پاس قرآنِ کریم کا نسخہ رکھا کرتے تھے؛ اور اُنھوں نے ’بِل آف رائٹس‘ کا ذکر کیا، جس میں مسلمانوں کو ’محمدنز‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔
اوباما نے کہا کہ امریکہ میں پہلی مسجد نارتھ ڈکوٹا میں تعمیر ہوئی، ملک کی سب سے پرانی مسجد آئیووا میں قائم ہے، جب کہ امریکہ کی اولین فلک بوس عمارت شکاگو مین تعمیر ہوئی، جسے ایک مسلمان نے ڈیزائن کیا تھا۔
اُنھوں نے امریکہ کے نامور کھلاڑی مثلاٍ محمد علی اور کریم عبدالجبار کا ذکر کیا اور کہا کہ ملک کے مختلف شعبہ جات میں، جن میں طب، قانون، تعلیم اور سائنس بھی شامل ہیں، مسلمان امریکیوں کے فخریہ نقش موجود ہیں۔ صدر نے نامور امریکی مسلمان خاتون، ابتہاج محمد کا نام لیا، جو حجاب پہنتی ہیں اور اولمپک فینسنگ کی معروف کھلاڑی ہیں۔ وہ اس موقعے پر موجود تھیں، جنھیں مخاطب ہوتے ہوئے، صدر نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اولمپک میں امریکہ کے لیے ’طلائی تمغہ‘ جیت کر آئیں گی۔
صدر نے کہا کہ مسلمان امریکی فوج کے علاوہ قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں میں ’’محنت اور جانفشانی سے فرائض انجام دے رہے ہیں‘‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ میڈیا پر مسمانوں کو ’’مثبت انداز سے پیش کیا جائے‘‘، ناکہ اُنھیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جائے، جو، بقول اُن کے، ’’بالکل ہی غلط تاثر ہے‘‘۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ القاعدہ یا داعش جیسی تنظیمیں ’’کسی طور پر اسلام یا مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتیں‘‘۔ بقول اُن کے، ’’یہ وہ ٹولے ہین جو اسلام کے مہذب اور پُرامن مذہب کا غلط پرچار کرتے ہیں، جس کا اسلام سے دور دور تک، قطعاً کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
صدر اوباما نے یاد دلایا کہ مسلمان ملکوں کے رہنما، اکابرین اور علما دہشت گردی، انتہا پسندی اور پُرتشدد حرکات کی ’’کھل کر مذمت کرتے رہے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ نے مختلف ملکوں میں جن لوگوں کو ہلاک کیا ہے، اُن مین سب سے زیادہ تعداد ’’خود بے گناہ مسلمانوں کی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ابراہیمی ادیان۔۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام۔۔ کے ماننے والوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا احترام و قدر کریں، اور منفی سوچ کا قلع قمع کرنے مین ایک دوسرے کی معاونت کریں‘‘۔
صدر نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ اسلام دہشت گردی کا درس دیتا ہے۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ ’’بدقسمتی سے مسلمان ملکوں میں ایسی تنظیمیں تشکیل پائیں اور سرگرم رہیں اور سرگرم ہیں جو باضابطہ طور پر تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں‘‘۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے دور دوسرے الہامی مذاہب میں بھی آئے ہے، جیسے یہودیت اور مسیحیت۔
بقول اُن کے، ’’کسی ایک مذہب پر حملہ، دراصل سارے مذاہب پر حملہ ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’آپ مسلمان یا امریکی نہیں، بلکہ آپ امریکی مسلمان ہیں‘‘۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ اسلام پر حملہ تمام مذاہب پر حملے کے مترادف ہے۔
صدر نے قرآن کی سورہٴ ہجرات کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شعوب و قبائل میں پیدا کیا، تاکہ پہچان ہو سکے، جب کہ کسی ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت و فوقیت نہیں۔ ساتھ ہی، صدر نے ایک اور آیت کا ذکر کیا جس مین کہا گیا ہے کہ ’کسی بے گناہ کا قتل، دراصل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ پیرس حملے ہوں یا کیلی فورنیا میں سان برنارڈینو کا قتل کا المناک واقعہ، اِن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
صدر نے کہا کہ جب تک پُرتشدد کارروائیوں کی کھل کر مذمت نہیں کی جائے گی، تب تک اس کا تدارک اور انسداد ممکن نہ ہوگا۔
اُنھوں نے یاد دلایا کہ دنیا بھر میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے مؤثر حربی کارروائی جاری ہے، جسے جاری رکھا جائے گا۔
صدر اوباما نے افسوس کا اظہار کیا کہ مسلمانوں میں شیعہ اور سنی کی تفریق پیدا کی گئی ہے، جب کہ صدیوں سے دونوں فرقے مکمل مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ اُنھوں نے چوکنہ کیا کہ مذہب و مسلک کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے والوں سے چوکنہ رہیں۔
اس سے قبل، صدر نے ایک راؤنڈٹیبل اجلاس میں شرکت کی۔ بعدازاں، اُنھوں نے کہا کہ شریک اکابرین نے یہ بات کی کہ جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے، اُن کی پریشانی بڑھ جاتی ہے، اور مذہب اسلام کے خلاف ہر طرح کے الزامات سامنے آتے ہیں۔ صدر نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’ایسا نہیں ہونا چاہیئے، چونکہ مذہب ایسے گھناؤنے واقعات کی اجازت نہیں دیتا‘‘۔
صدر نے کہا کہ اسلام ’’سلامتی کا مذہب ہے، جس میں رحم، ہمدردی اور انصاف پر زور دیا گیا ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ آپ دوسروں سے اس طرح کا سلوک کریں، جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے سلوک روا رکھا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ دنیا کی 1.6 ارب کی آبادی ہر نسل و رنگ پر مشتمل ہے۔
اِس سے قبل، اپنے خیرمقدمی کلمات میں، ’اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور‘، محمد جمیل نے بتایا کہ سوسائٹی کا قیام 1969ء میں عمل میں آیا، جو اُس سے قبل، نماز جمعہ کے علاوہ ایک مقامی یونیورسٹی میں ہفتہ وار اجلاس منعقد کیا کرتی تھی۔ اُنھوں نے بتایا کہ 1980ء کی دہائی میں اِسی مقام پر مسجد الرحمٰن کو وسعت دی گئی، جس میں صحت کا ایک کلینک اور ابتدائی تعلیم کا ایک اسکول کھولا گیا۔
تقریب کے آغاز سے قبل، مسلمانوں کے ایک گروپ نے امریکی شہریت حاصل کی، جس میں امریکہ سے وفاداری کا عہد کیا گیا۔ اِس تقریب کا آغاز، قرآن حکیم کی تلاوت سے ہوا۔
صدر اوباما نے امریکی مسجد کا یہ پہلا دورہ ایسے وقت کیا جب جاری صدارتی انتخابی مہم میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کا ڈیٹابیس تیار کرنے اور دو دسمبر کو کیلی فورنیا کے شہر، سان برنارڈینو میں دہشت گرد حملے کے تناظر میں یہ مطالبہ کرنا کہ نئے مسلمان تارکین وطن کو امریکہ میں آنے پر عارضی پابندی لگائی جائے۔
ادھر، ریپبلیکن پارٹی کے متعدد معروف ارکان، جن میں سینیٹر جان مکین اور صدارتی امیدوار جیب بش شامل ہیں، مسلمانوں کی آمد پر پابندی کے مطالبے کی مذمت کی ہے؛ جب کہ گذشتہ سال بین کارسن نے کہا تھا کہ اسلام پر عقیدہ رکھنے والا شخص امریکی صدر بننے کے قابل نہیں۔
ستمبر 2015ء میں این بی سی کے ’میٹ دی پریس‘ پروگرام کو انٹرویو دیتے ہوئے، کارسن نے کہا تھا کہ ’’میں اس بات کی وکالت نہیں کروں گا کہ ہم کسی مسلمان کو ملک کا سربراہ بناسکتے ہیں‘‘۔
صدر اوباما نے نہ صرف صدارتی امیدواروں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کا براہ راست جواب دیا، بلکہ متعدد بار ایسے بیانات کی مذمت کر چکے ہین؛ اور اپنے آخری ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں اُنھوں نے بہت ہی بھرپور انداز سے مسلمانوں کا دفاع کیا تھا۔
اُنھوں نے امریکیوں پر زور دیا کہ ایسی سیاست کو مسترد کردیں جس میں ’’نسل یا مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ہدف بنایا جائے‘‘۔
تیرہ جنوری کی تقریر میں، اوباما نے کہا کہ ’’جب سیاستدان مسلمانوں کو بے توقیر کرتے ہیں، چاہے بیرون ملک یا ہمارے اپنے شہریوں کو، جب کسی مسجد کی بے حرمتی ہو، یا کسی بچے کو گالیاں دی جائیں، اس سے ہم محفوظ نہیں ہوتے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے جیسے ہو رہا ہے۔ یہ یکسر غلط ہے‘‘۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ نے منگل کو کہا تھا کہ مسلمانوں کو اجازت ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں، جن کے خلاف حکومت کی جانب سے مداخلت نہیں کی جانی چاہیئے، ناہی انتخابی مہم کے دوران منقسم کرنے کی غرض سے بیان بازی کی جانی چاہیئے۔