طبی ماہرین نے پاکستانیوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کو قابلِ تشویش قرار دیتے ہوئے ملک میں صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے یا وزن کی زیادتی کا شکار ہیں جب کہ عام تاثر کے برعکس موٹاپے میں اضافے کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی موٹاپے میں تیزی سے اضافے ہورہا ہے اور ملک کی لگ بھگ 15 سے 18 فی صد آبادی وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہے۔
کراچی کے 'عباسی شہید اسپتال' کے شعبہ امراضِ قلب کے سربراہ پروفیسرڈاکٹر عبدالرشید موٹاپے کو 'امّ الامراض' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فربہی ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراضِ قلب، کینسر اور جوڑوں کے درد سمیت کئی سنگین امراض کا سبب بنتی ہے۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں ڈاکٹر رشید کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان میں موٹاپے کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موٹاپے کا شکار ہے۔
اس کا سبب، ان کے بقول، ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث طرزِ زندگی میں آنے والی تبدیلیاں ہیں جس نے نوجوانوں کو موبائل اور انٹرنیٹ تک محدود کرکے جسمانی سرگرمیوں سے دور کیا ہے۔ ڈاکٹر رشید کہتے ہیں کہ مستقل بیٹھے رہنے اور چہل قدمی نہ کرنے کے باعث انسانی جسم کا کولیسٹرول اور شوگر گھل نہیں پاتے جو بعد ازاں موٹاپے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
طبی ماہرین کےمطابق پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں موٹاپے کی شرح خاصی زیادہ ہے جو صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کی آئندہ نسل کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
کراچی کے آغا خان اسپتال سے منسلک پی ایچ ڈی ڈاکٹر شبین ناز مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستانی مردوں میں موٹاپے کی 13 فی صد شرح کے مقابلے میں ملک کی 22 فی صد خواتین موٹی یا زائد وزن کی حامل ہیں۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں ڈاکٹر شبین ناز نے بتایا کہ خواتین کا موٹا ہونا انتہائی تشویش ناک ہے کیوں کہ ان کا موٹاپا اور اس کے باعث پیدا ہونے والی بیماریاں نئی نسل میں منتقل ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔
خواتین میں موٹاپے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شبین نے بتایا کہ مشرقی طرزِ زندگی کے باعث پاکستانی خواتین زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں جس کے باعث انہیں چہل قدمی کرنے اور دیگر جسمانی سرگرمیوں کے زیادہ مواقع میسر نہیں آتے۔
ان کے بقول عموماً خواتین شادی اور خصوصاً ماں بننے کے بعد اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پاتیں اور یہ طرزِ عمل بھی موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔
موٹاپے کا شکار خواتین کو درپیش مسائل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فربہ خواتین کو ڈپریشن اور خوداعتمادی میں کمی جیسے نفسیاتی مسائل کے علاوہ شادیوں میں تاخیر جیسے سماجی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
ڈاکٹر شبین کے مطابق ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، جوڑوں کے درد اور پتے کی پتھری جیسے امراض کے علاوہ فربہ خواتین کے دورانِ حمل بھی کئی پیچیدگیوں کے شکار ہونے کا امکان پڑھ جاتا ہے۔ ان کے بقول موٹاپے کے باعث ہارمونزکا نظام بگڑنے سے فربہ خواتین میں اسقاطِ حمل کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جب کہ عام خواتین کے مقابلے میں زائد وزن رکھنے والی خواتین میں بانجھ پن کی شرح بھی ڈھائی فی صد زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اس بڑھتے ہوئے موٹاپے کی بڑی وجوہات میں غیر متوازن اور مرغن غذائوں کا استعمال اور جدیدیت سے متاثر طرزِ زندگی سرِ فہرست ہیں۔
ماہرِ خوراک و غذائیت خدیجہ میثم عباس کے مطابق جدید طرزِ زندگی کے باعث لوگوں کی جسمانی سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں جب کہ گھر سے باہر کھانے کا رواج بھی موٹاپے کا سبب بن رہا ہے۔
خدیجہ کا کہنا ہے کہ صحت مند اور فطرت سے ہم آہنگ طرزِ زندگی اپنا کر نہ صرف موٹاپے سے بچا جاسکتا ہے بلکہ وزن میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔
وہ کچی سبزیوں کا بطورِ سلاد اور سفید آٹے کی جگہ بھوسی ملے برائون آٹے کا استعمال بڑھانے کے ساتھ ساتھ نمک اور شکر کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے بقول ڈبے میں بند جوس، مٹھائیوں اور کولڈ ڈرنک کے بجائے تازہ پھلوں اور فروٹ چاٹ جب کہ پکوڑوں، سموسوں جیسی روایتی غذائوں کے متبادل کے طور پر چنے کی چاٹ استعمال کرکے موٹاپے سے بچا جاسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے یا وزن کی زیادتی کا شکار ہیں جب کہ عام تاثر کے برعکس موٹاپے میں اضافے کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی موٹاپے میں تیزی سے اضافے ہورہا ہے اور ملک کی لگ بھگ 15 سے 18 فی صد آبادی وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہے۔
کراچی کے 'عباسی شہید اسپتال' کے شعبہ امراضِ قلب کے سربراہ پروفیسرڈاکٹر عبدالرشید موٹاپے کو 'امّ الامراض' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فربہی ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراضِ قلب، کینسر اور جوڑوں کے درد سمیت کئی سنگین امراض کا سبب بنتی ہے۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں ڈاکٹر رشید کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان میں موٹاپے کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موٹاپے کا شکار ہے۔
اس کا سبب، ان کے بقول، ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث طرزِ زندگی میں آنے والی تبدیلیاں ہیں جس نے نوجوانوں کو موبائل اور انٹرنیٹ تک محدود کرکے جسمانی سرگرمیوں سے دور کیا ہے۔ ڈاکٹر رشید کہتے ہیں کہ مستقل بیٹھے رہنے اور چہل قدمی نہ کرنے کے باعث انسانی جسم کا کولیسٹرول اور شوگر گھل نہیں پاتے جو بعد ازاں موٹاپے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان میں موٹاپے کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موٹاپے کا شکار ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید، ماہرِ امراضِ قلب
طبی ماہرین کےمطابق پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں موٹاپے کی شرح خاصی زیادہ ہے جو صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کی آئندہ نسل کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
کراچی کے آغا خان اسپتال سے منسلک پی ایچ ڈی ڈاکٹر شبین ناز مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستانی مردوں میں موٹاپے کی 13 فی صد شرح کے مقابلے میں ملک کی 22 فی صد خواتین موٹی یا زائد وزن کی حامل ہیں۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں ڈاکٹر شبین ناز نے بتایا کہ خواتین کا موٹا ہونا انتہائی تشویش ناک ہے کیوں کہ ان کا موٹاپا اور اس کے باعث پیدا ہونے والی بیماریاں نئی نسل میں منتقل ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔
خواتین میں موٹاپے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شبین نے بتایا کہ مشرقی طرزِ زندگی کے باعث پاکستانی خواتین زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں جس کے باعث انہیں چہل قدمی کرنے اور دیگر جسمانی سرگرمیوں کے زیادہ مواقع میسر نہیں آتے۔
ان کے بقول عموماً خواتین شادی اور خصوصاً ماں بننے کے بعد اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پاتیں اور یہ طرزِ عمل بھی موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔
موٹاپے کا شکار خواتین کو درپیش مسائل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فربہ خواتین کو ڈپریشن اور خوداعتمادی میں کمی جیسے نفسیاتی مسائل کے علاوہ شادیوں میں تاخیر جیسے سماجی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
ڈاکٹر شبین کے مطابق ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، جوڑوں کے درد اور پتے کی پتھری جیسے امراض کے علاوہ فربہ خواتین کے دورانِ حمل بھی کئی پیچیدگیوں کے شکار ہونے کا امکان پڑھ جاتا ہے۔ ان کے بقول موٹاپے کے باعث ہارمونزکا نظام بگڑنے سے فربہ خواتین میں اسقاطِ حمل کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جب کہ عام خواتین کے مقابلے میں زائد وزن رکھنے والی خواتین میں بانجھ پن کی شرح بھی ڈھائی فی صد زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اس بڑھتے ہوئے موٹاپے کی بڑی وجوہات میں غیر متوازن اور مرغن غذائوں کا استعمال اور جدیدیت سے متاثر طرزِ زندگی سرِ فہرست ہیں۔
ماہرِ خوراک و غذائیت خدیجہ میثم عباس کے مطابق جدید طرزِ زندگی کے باعث لوگوں کی جسمانی سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں جب کہ گھر سے باہر کھانے کا رواج بھی موٹاپے کا سبب بن رہا ہے۔
جدید طرزِ زندگی کے باعث لوگوں کی جسمانی سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں جب کہ گھر سے باہر کھانے کا رواج بھی موٹاپے کا سبب بن رہا ہے۔خدیجہ میثم عباس، نیوٹریشنسٹ
خدیجہ کا کہنا ہے کہ صحت مند اور فطرت سے ہم آہنگ طرزِ زندگی اپنا کر نہ صرف موٹاپے سے بچا جاسکتا ہے بلکہ وزن میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔
وہ کچی سبزیوں کا بطورِ سلاد اور سفید آٹے کی جگہ بھوسی ملے برائون آٹے کا استعمال بڑھانے کے ساتھ ساتھ نمک اور شکر کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کے بقول ڈبے میں بند جوس، مٹھائیوں اور کولڈ ڈرنک کے بجائے تازہ پھلوں اور فروٹ چاٹ جب کہ پکوڑوں، سموسوں جیسی روایتی غذائوں کے متبادل کے طور پر چنے کی چاٹ استعمال کرکے موٹاپے سے بچا جاسکتا ہے۔