رسائی کے لنکس

گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک انوکھا فٹ بال ٹورنامنٹ


لداخ میں کلائیمیٹ فرینڈلی فٹ بال ٹورنامنٹ کا ایک منظر، فوٹو اے رپی، 5 ستمبر 2023
لداخ میں کلائیمیٹ فرینڈلی فٹ بال ٹورنامنٹ کا ایک منظر، فوٹو اے رپی، 5 ستمبر 2023

اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے عموماً آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے،اور اگر 11 ہزار فٹ کی اونچائی پر فٹ بال کھیلنا پڑ جائے تو کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ لداخ کے فٹ بال ٹورنامنٹ میں کھلاڑی بھی اسی امتحان سے گزر رہے ہیں۔

لداخ ہمالیہ کے دامن میں تقریباً 11 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس خطے سے پاکستان، بھارت اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔اس کے شمالی حصے پر پاکستان اور جنوبی پر بھارت کا کنٹرول ہے۔ یہاں ہوا میں آکسیجن کا تناسب اتنا کم ہے کہ چند قدم چلنے سے ہی سانس پھول جاتا ہے۔مگر یہاں اپنی نوعیت کا نہ صرف پہلا فٹ بال ٹورنا منٹ کھیلا جا رہا ہے بلکہ اس ٹورنامنٹ کو کلائمیٹ فرینڈلی بھی کہا جا رہا ہے، یعنی یہ ٹورنامنٹ ماحول دوست ہے۔

کلائمیٹ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ کا ایک منظر۔ 5 ستمبر 2023
کلائمیٹ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ کا ایک منظر۔ 5 ستمبر 2023

ٹورنامنٹ پر بات کرنے سے پہلے ذرا اس علاقے کا ذکر ہو جائے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی تو ہم آپ کو بتا ہی چکے ہیں کہ 11 ہزار فٹ یعنی 3350 میٹر ہے۔ یہاں یہ دھیان میں رہےکہ مری کی بلندی تقریباً ساڑھے سات ہزار فٹ ہے۔ لداخ کا شمار دنیا کے بلند ترین خطوں میں کیا جاتا ہے۔

بھارتی کنٹرول کے لداخ کا رقبہ تقریباً 60 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی محض تین لاکھ ہے۔90 فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔یہاں گندم، جو اورمختلف قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں۔اس علاقے میں بکریاں بھی پالی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی اون کشمیر یا پشمینہ کہلاتی ہے جس کا شمار مہنگی ترین اون میں کیا جاتا ہے۔

لداخ کی خصوصی بکریاں جن سے دنیا کی مہنگی ترین اون، کشمینہ حاصل ہوتی ہے۔ 17 ستمبر 2022
لداخ کی خصوصی بکریاں جن سے دنیا کی مہنگی ترین اون، کشمینہ حاصل ہوتی ہے۔ 17 ستمبر 2022

ماحول دوست فٹ بال ٹورنامنٹ لداخ کے صدرمقام لیہہ میں ہو رہا ہے۔ اس شہر کی آبادی 30 ہزار سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کے دامن میں واقع یہ ایک صحرائی شہر ہے۔ جب ہوا چلتی ہے تو ریت اڑنے لگتی ہے اور فٹ بال کے اس گراؤنڈ کو جہاں مصنوعی گھاس بچھائی گئی ہے، ریت کی تہہ ڈھانپ دیتی ہے جسے صاف کرنا پڑتا ہے۔

آپ کو شاید یہ جان کی بھی حیرانی ہو گی کہ یہ ایک انتہائی سرد صحرائی شہر ہے۔ یہاں دوپہر میں درجہ حرارت صفر کے قریب ہوتا ہے، اور رات کو صفر سے 30 درجے نیچے تک گر جاتا ہے۔ چونکہ یہاں کی فضا بہت لطیف ہے، اس لیے سورج کی کرنیں بلا روک ٹوک آتی ہیں جس سے دھوپ چبھتی ہوئی سی محسوس ہوتی ہے۔ پہاڑی مقامات کے برعکس یہاں بارش کا سالانہ تناسب چار انچ سے بھی کم ہے۔

لیہہ کے مضافات میں واقع خانقاہ تھیکسے کے پاس پھونچوک تصویر بنوا رہی ہیں۔ فائل فوٹو
لیہہ کے مضافات میں واقع خانقاہ تھیکسے کے پاس پھونچوک تصویر بنوا رہی ہیں۔ فائل فوٹو

لیہہ میں فٹ بال ٹورنامنٹ کرانے والے منتظمین ، نہ صرف وہاں فٹ بال کو فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ لداخ کے لوگوں کو آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات سےبھی آگاہی ہو اور وہ اس عالمی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ اس علاقے کا پہلا ٹورنامنٹ ہے جس میں چار ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ ان ٹیموں کے کھلاڑی جب دنیا کے سب سے بلند فٹ بال گراؤنڈ میں پریکٹس کے لیے اترے تو انہیں ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ چند قدم بھاگتے ہی ان کا سانس پھول جاتا تھا اور وہ بیٹھ کر ہاپنے لگتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بلندی کی وجہ سے ہوا میں آکسیجن بہت کم تھی، جس میں کھلینے کا انہیں تجربہ نہیں تھا۔ تاہم دو تین روز میں ان کے اندر لیہہ کے ماحول سے کچھ مطابقت پیدا ہو گئی اور وہ کھیلنے کے قابل ہو گئے۔

لیہہ میں کلائمیٹ کپ ٹورنامنٹ کے کھلاڑی میدان میں اتر رہے ہیں۔ 5 ستمبر 2023
لیہہ میں کلائمیٹ کپ ٹورنامنٹ کے کھلاڑی میدان میں اتر رہے ہیں۔ 5 ستمبر 2023

اگرچہ یہ لداخ میں کرایا جانے والا اولین فٹ بال ٹورنامنٹ ہے، لیکن ان مقابلوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر نہیں کی گئی اور قصبے میں چند ہی پوسٹر وغیرہ لگائے گئے۔شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کم آبادی والے قصبوں کی طرح یہاں بھی خبر ایک شخص سے دوسرے اور پھر تیسرے سے ہوتی ہوئی سبھی تک پہنچ جاتی ہو گی ۔تاہم اس ٹورنامنٹ سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی گئی اور یوٹیوب پر مقابلے براہ راست دکھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔

اس ٹورنامنٹ کے ماحول دوست پہلو کو ابھارنے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں لانے لے جانے کے لیے الیکٹرک ٹرانسپورٹ استعمال کی جا رہی ہے۔ شائقین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ لائیں جس میں پلاسٹک کا استعمال ہو۔ یہاں تک کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی لانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میچ کے مقام پر چپس کھانے اور سوڈا پینے کی ممانعت کرتے ہوئے مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مقامی طور پر اگنے والے پھل اور گھر میں بنائی گئی خالص اور صحت بخش چیزیں کھائیں۔

لداخ کے خانہ بدوش منفرد انداز کی زندگی بسر کرتے ہیں جن میں رنگوں کو بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
لداخ کے خانہ بدوش منفرد انداز کی زندگی بسر کرتے ہیں جن میں رنگوں کو بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

میچ کے ایک مقامی منتظم تاشی گیالسن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ہمارا مقصد صرف فٹ بال کے مقابلے کرانا ہی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو ماحول کو درپیش خطرے سے آگاہ کرنا اور مقابلے کے لیے تیار کرنا بھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ماحول کو آلودگی اور گلوبل وارمنگ کے خطرات سے بچانے کی عاجزانہ ابتدا کر دی ہے۔ ہم اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

بھارتی فوجی لداخ کے متنازع علاقے میں مورچے بنانے میں مصروف ہیں۔ 15 فروری 2021
بھارتی فوجی لداخ کے متنازع علاقے میں مورچے بنانے میں مصروف ہیں۔ 15 فروری 2021

ہمالیہ کے اس خطے کو علاقائی تنازعات اور آب و ہوا کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاچن کے بلند و بالا گلیشیرز پر پاکستان اور بھارت کی فوجیں صف آرا ہیں جس سے برفانی تہوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں ۔ لداخ ہی کے علاقے میں چین اور بھارت کی فوجیں بھی آمنے سامنے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حمل یہاں کے قدرتی ماحول کو منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت بھی اپنے نقش ثبت کر رہا ہے جس سے دو ارب انسانوں کے لیے بقا کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

ہمالیہ کے اس علاقے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 ہزار سے زیادہ ایسے گلیشیئرز اور برفانی تہیں موجود ہیں جن کا رقبہ آدھے کلومیٹر سے زیادہ ہے۔یہاں سے نکلنے والے دریا ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی کی پانی اور آبپاشی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

لداخ کے خطے میں پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے خالی ہوتی جا رہی ہیں۔ 14 ستمبر 2020
لداخ کے خطے میں پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے خالی ہوتی جا رہی ہیں۔ 14 ستمبر 2020

گلوبل وارمنگ کے اثرات اور گلیشیئرز پر انسانی نقل و حرکت میں اضافے نے برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ کر دیا ہےجس سے بڑے پیمانے پر سیلاب آ رہے ہیں اور خطے میں موسموں کی شدت بڑھ رہی ہے۔

گلیشیئرز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ لداخ کے خطے میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار 1971 سے 1999 کی مدت کے مقابلے میں 1999 سے 2021 کے عرصے میں چھ گنا زیادہ رہی جو خطرے کی گھنٹی ہے۔

اس سے پہلے کہ پہاڑوں کی چوٹیاں چاندی جیسی اجلی برف سے خالی ہو جائیں، لیہہ میں ہونے والے فٹ بال کے ٹورنامنٹ سمیت ، ہر علاقے میں، ہر سطح پر، ہر انداز میں لوگوں میں اس خطرے کا شعور پیدا کرنا اور انہیں اپنی بقا کے لیے اقدامات پر تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG