آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ اتھارٹی (او جی ڈی سی ایل) نے بلوچستان کے خاران، کوہلو، بارکھان، شیرانی اور پشین کے علاقوں میں گیس کے نئے ذخائر دریافت کیے ہیں۔
ادارے کے صوبائی سربراہ، اکرم کاسی کا کہنا ہے کہ اِن علاقوں میں اگلے چھ ماہ میں گیس کمپنیوں کی مدد سے صارفین تک گیس کی فراہمی کے کام کی کوشش کی جائے گی۔
یہ معلوم کرنے پر کہ گیس نکالنے کا عمل اتنا پیچیدہ اور مہنگا کیوں ہے، ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جیاں رنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل منیجر، آغا گل نے بتایا کہ قدرتی وسائل کی دریافت کا کام مشکل ہوا کرتا ہے، جب کہ اسے محفوظ بنانا، ترسیل اور دستیابی کے مراحل پر بے تحاشہ لاگت آتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’100 کنویں کھودے جائیں تو بمشکل ایک یا دو میں سے گیس دریافت ہوتی ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان کو گیس درآمد کرنی ہوگی، جب کہ کوششیں جاری ہیں کہ وہ دِن جلد آئے کہ ہم گیس کی اپنی ضروریات خود پوری کر سکیں۔
آغا گل نے اس توقع کا اظہار کیا کہ بلوچستان تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے، اور بہت جلد مزید ذخائر دریافت ہوں گے، جس کے نتیجے میں صارفین کی ضروریات پوری ہوں گی اور ملک خوش حال ہوگا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ کو کلک کیجئیے: