لندن —
برطانوی سائنسدانوں کو نورفوک کاؤنٹی میں ابتدائی دور کے انسانوں کے پیروں کے نشانات ملے ہیں جو ماہرین کے بقول بظاہر آٹھ لاکھ سال قدیم اور اولین برطانوی باشندوں کے ہوسکتےہیں۔
ان باشندوں کا تعلق براعظم یورپ میں آباد ہونے والی ابتدائی نسل سے تھا۔
برٹش میوزیم، ’لندن نیچرل ہسٹری میوزیم‘ اور ’کوئین میری کالج لندن‘ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ٹیم نے بتایا کہ گذشتہ برس انھوں نے شمالی نورفوک کے ساحل پر 50 انسانی قدموں کے نشانات کی شناخت کی تھی جوزیادہ سے زیادہ پانچ افراد پر مشتمل ایک گروپ کے ہو سکتے تھےتاہم ساحل پرظاہرہونے والے یہ نشانات سمندری لہروں کے ساتھ جلد ہی غائب ہو گئے لیکن ماہرین، جنھوں نے نشانات کودریافت کیا تھا ،اسے ڈیجٹل فوٹو گرافس کے ذریعے محفوظ کر لیا تھا ۔
سائنس جرنل پلوس ون Plos One میں شائع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق دریافت ہونے والے پیروں کے نشانات کی ساخت جدید انسان کے پیروں سے مشابہ ہے اور ایک نشان میں انگلیوں کے نشانات بھی جدید انسان کی انگلیوں سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
قدموں کے ان نشانات کی پیمائش سے قدیم دور کے انسانوں کی چال اور قد کا اندازہ ہوتا ہے جو شاید ایک ہی خاندان سے تھے جن میں کم از کم دوبچے اورایک بالغ مرد شامل تھا اور ان کی قامت لگ بھگ 3 فٹ سے 5 فٹ 7 انچ رہی ہوگی۔
تیس برس تک برٹش میوزیم کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر نک آشٹن نے جائزہ رپورٹ میں بتایا کہ ’’ممکن ہے کہ یہ نشانات اس وقت یورپ میں آباد اولین انسانوں نے چھوڑے ہوں جوشاید دریا کے کنارے خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے تھے خیال ہے کہ وہ شاید قدیم ٹیمز کے کنارے پر چل رہے تھے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس وقت ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں لیکن جب ہم نے نشانات پر سے بچی ہوئی مٹی ہٹائی اور پانی جذب ہوا تو یہ گہرے نشانات انسانی قدموں کی شکل میں واضح ہو گئے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ ماہرین کو 2010ء میں اسی علاقے سے قدیم انسانوں کے زیراستعمال پتھروں کے اوزار دریافت ہوئے تھے لیکن یورپ میں انسانی ارتقاء کے حوالے سے ملنے والا یہ پہلا براہ راست ثبوت تھا کہ انسان اس خطے میں موجود تھا اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ افریقہ سے باہر یہ سب سے قدیم زمانے کے انسانوں کے پیروں کے نشانات ہیں جو یورپ سے ملے ہیں۔
آشٹن کے مطابق ’’یہ نشانات اس تعلق کا ٹھوس ثبوت ہیں جو ہمارا اپنے پرکھوں کے ساتھ ہے۔‘‘
لندن نیچرل ہسٹری میوزیم سے تعلق رکھنے والے علم البشریات اور تاریخ کےماہر کرس اسٹرنگر نے کہا کہ یہ نشانات دو پیروں سے چلنے کی صفت رکھنے والے ہماری طرح کے انسانوں کے ہیں جن کی اونچائی ہو بہو ہمارے قد سے مشابہ رہی ہوگی ۔
آثار قدیمہ کے ریکارڈ کے مطابق قدیم انسانوں کا ٹائٹل تنزانیہ سے ملنے والے تیس لاکھ پچاس ہزار سال پرانے قدموں کے نشانات کو دیا گیا تھا جبکہ قدیم انسانوں کی موجودگی کا دوسرا ثبوت بھی افریقہ میں کینیا کی پہاڑیوں پرسےملا تھا۔ اس بار دریافت ہونے والے نشانات ڈیڑھ ملین سال پرانے زمانے کے انسانوں کے تھے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ یہ دریافت انسان کے ارتقاء اور اس کے جسمانی اور ماحولیاتی سلسلے کا پتہ لگانے میں بہت مددگار ثابت ہو گی۔
ان باشندوں کا تعلق براعظم یورپ میں آباد ہونے والی ابتدائی نسل سے تھا۔
برٹش میوزیم، ’لندن نیچرل ہسٹری میوزیم‘ اور ’کوئین میری کالج لندن‘ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ٹیم نے بتایا کہ گذشتہ برس انھوں نے شمالی نورفوک کے ساحل پر 50 انسانی قدموں کے نشانات کی شناخت کی تھی جوزیادہ سے زیادہ پانچ افراد پر مشتمل ایک گروپ کے ہو سکتے تھےتاہم ساحل پرظاہرہونے والے یہ نشانات سمندری لہروں کے ساتھ جلد ہی غائب ہو گئے لیکن ماہرین، جنھوں نے نشانات کودریافت کیا تھا ،اسے ڈیجٹل فوٹو گرافس کے ذریعے محفوظ کر لیا تھا ۔
سائنس جرنل پلوس ون Plos One میں شائع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق دریافت ہونے والے پیروں کے نشانات کی ساخت جدید انسان کے پیروں سے مشابہ ہے اور ایک نشان میں انگلیوں کے نشانات بھی جدید انسان کی انگلیوں سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
قدموں کے ان نشانات کی پیمائش سے قدیم دور کے انسانوں کی چال اور قد کا اندازہ ہوتا ہے جو شاید ایک ہی خاندان سے تھے جن میں کم از کم دوبچے اورایک بالغ مرد شامل تھا اور ان کی قامت لگ بھگ 3 فٹ سے 5 فٹ 7 انچ رہی ہوگی۔
تیس برس تک برٹش میوزیم کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر نک آشٹن نے جائزہ رپورٹ میں بتایا کہ ’’ممکن ہے کہ یہ نشانات اس وقت یورپ میں آباد اولین انسانوں نے چھوڑے ہوں جوشاید دریا کے کنارے خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے تھے خیال ہے کہ وہ شاید قدیم ٹیمز کے کنارے پر چل رہے تھے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس وقت ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں لیکن جب ہم نے نشانات پر سے بچی ہوئی مٹی ہٹائی اور پانی جذب ہوا تو یہ گہرے نشانات انسانی قدموں کی شکل میں واضح ہو گئے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ ماہرین کو 2010ء میں اسی علاقے سے قدیم انسانوں کے زیراستعمال پتھروں کے اوزار دریافت ہوئے تھے لیکن یورپ میں انسانی ارتقاء کے حوالے سے ملنے والا یہ پہلا براہ راست ثبوت تھا کہ انسان اس خطے میں موجود تھا اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ افریقہ سے باہر یہ سب سے قدیم زمانے کے انسانوں کے پیروں کے نشانات ہیں جو یورپ سے ملے ہیں۔
آشٹن کے مطابق ’’یہ نشانات اس تعلق کا ٹھوس ثبوت ہیں جو ہمارا اپنے پرکھوں کے ساتھ ہے۔‘‘
لندن نیچرل ہسٹری میوزیم سے تعلق رکھنے والے علم البشریات اور تاریخ کےماہر کرس اسٹرنگر نے کہا کہ یہ نشانات دو پیروں سے چلنے کی صفت رکھنے والے ہماری طرح کے انسانوں کے ہیں جن کی اونچائی ہو بہو ہمارے قد سے مشابہ رہی ہوگی ۔
آثار قدیمہ کے ریکارڈ کے مطابق قدیم انسانوں کا ٹائٹل تنزانیہ سے ملنے والے تیس لاکھ پچاس ہزار سال پرانے قدموں کے نشانات کو دیا گیا تھا جبکہ قدیم انسانوں کی موجودگی کا دوسرا ثبوت بھی افریقہ میں کینیا کی پہاڑیوں پرسےملا تھا۔ اس بار دریافت ہونے والے نشانات ڈیڑھ ملین سال پرانے زمانے کے انسانوں کے تھے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ یہ دریافت انسان کے ارتقاء اور اس کے جسمانی اور ماحولیاتی سلسلے کا پتہ لگانے میں بہت مددگار ثابت ہو گی۔