صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ نیٹو ’’انتہائی اہم‘‘ دفاعی ادارہ ہے، ایسے میں جب وہ یورپ کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہٴ صدارت میں اتحاد کے حوالے سے امریکہ اپنے عزم پر قائم رہے گا۔
وہ منگل کے روز ایتھینز میں تھے، جو صدر کے طور پر اوباما کا آخری غیر ملکی دورہ ہے۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ ’’ایسے میں جب امریکہ سرکاری عبوری دور سے گزر رہا ہے، نیٹو کے سلسلے میں ہمارے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘
وہ منتخب صدر ٹرمپ کی جانب سے اس معاملے پر کی گئی باتوں اور پچھلی امریکی حکومتوں، جن میں اوباما انتظامیہ شامل ہے، کی نشاندہی کر رہے تھے، جن میں امریکی رہنما نے نیٹو کے ارکان پر زور دیا تھا کہ وہ دفاع کے لیے اپنے حصے کی زیادہ ادائگی کریں۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم قومیت یا نسلی شناخت یا قبائلی نسبت کے فرق پر سخت لب کشائی سے اجتناب کریں، جس سے’’ہم‘‘ اور ’’آپ‘‘ کا عندیہ ملتا ہو؛ اور مجھے یہ کہنے میں معذرت خواہانہ انداز اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انسان ذات کے مستقبل کا انحصار مشترکہ انداز کی سوچ پر ہوگا ناکہ ایسی باتوں پر جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں اور آخر کار ہمیں تنازع سے دوچار کر دیں‘‘۔
اوباما نے یونان کو سراہا۔ یونان کے وزیر اعظم الیگزی سیپراز کے ساتھ مشترکہ اخباری کانفرنس میں، صدر اوباما نے ملک کو مبارکباد دی کہ ’’حالانکہ مشکل صورت حال دو چار ہے‘‘، لیکن دفاع پر یونان اپنے ہدف سے زیادہ رقوم خرچ کر رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر نیٹو کے بارے میں یونان اپنے عزم پر پورا اتر سکتا ہے، تو پھر ہمارے تمام اتحادی بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
پیر کے روز وائٹ ہاؤس سے روانہ ہونے سے قبل، اوباما نے کہا تھا کہ ٹرمپ نے اُنھیں بتایا ہے کہ امریکہ کے حکمتِ عملی کے حامل تمام ٹھوس معاملات کا ’’انتہائی خیال کیا جاتا رہے گا‘‘۔
اوباما کے الفاظ میں، ’’اُن کی جانب سے میں ایک پیغام پہنچانا چاہوں گا کہ وہ نیٹو اور بین بحر اوقیانوس اتحاد کے عزم پر قائم ہیں‘‘۔
اپنی میعاد مکمل کرنے والے صدر نے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ یورپی اتحادی یہ بات جان لیں کہ ’’جب معاملہ مضبوط اور قابل رشک نیٹو کے تعلقات کا ہو، تو امریکہ کے عزم میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔‘‘
یورپی رہنما، جو انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے بیانات پر امریکہ کی سوچ کے بارے میں چوکنہ ہوگئے تھے، وہ بے چینی سے وضاحت کے منتطر رہے ہیں۔