کیا والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت کے لیے کی جانے والی سختی کے طریقے بدل گئے ہیں یا نئی نسل کا ردعمل؟ امریکی ریاست نیو جرسی کے ایک مڈل اسکول کی ٹیچر ایملی لِٹ مین کہتی ہیں کہ جب وہ مڈل اسکول کی طالبہ تھیں تو والدین کی جانب سے کسی غلطی یا نافرمانی کے لیے دی جانے والی سزا پر بچے روتے ہوئے کہتے تھے کہ اس سے تو اچھا تھا ہم مر جاتے۔آج کل جب بچوں سے فون اور ٹک ٹاک تک ان کی رسائی چھین لی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میں تو خود کو "Unalive" یا بے روح محسوس کر رہا ہوں ۔وہ اسے اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل تبدیلی گردانتی ہیں ۔
چھیالیس سال ایملی لِٹ مین جرسی سٹی اسکول میں ایسے طلباء کو انگریزی پڑھاتی ہیں جن کی یہ مادری زبان نہیں ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ ان کے طالبعلموں نے شائد کبھی خودکشی کا لفظ نہ سنا ہو اور شائدجملے میں بھی استعمال نہ کیا ہو لیکن وہ بھی" ان الائیو" کے لفظ سے واقف ہیں ،اور انگریزی زبان پر پوری طرح عبور نہ رکھنے والے یہ بچے بھی ٹک ٹاک سے متاثرہ ایسے الفاظ استعمال کرنا جانتے ہیں ۔
ان الائیو"سے مراد، خودکشی یا قتل کے ذریعے ہونے والی موت لی جاتی ہے اور اسے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایسی سائٹس اور ایپس پر الگورتھم کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو خودکشی یا قتل کے مواد پر مشتمل پوسٹس کو سنسر کرتے ہیں ۔
ایسوسی ایٹڈ پریس پر اپنے آرٹیکل میں جیف میک ملن لکھتے ہیں ،" زبان ہمیشہ ترقی کرتی رہی ہے، اس میں نئے نئے الفاظ ہمیشہ شامل ہوتے آئے ہیں۔ اکثر نئی روایات نوجوان نسل ہی قائم کرتی ہے لیکن آج کل انٹرنیٹ اور آن لائن ایپس نے اس عمل کو پہلے سے کہیں زیادہ تیز کر دیاہے۔جہاں انٹر نیٹ کے قواعد سے بچنے کے لیے اکثر نئے لفظ تراش لیے جاتے ہیں اور جو جلد ہی انٹرنیٹ سے نکل کر عام بول چال کے لفظ بن جاتے ہیں اور نوجوان نسل بغیر کسی آن لائن رکاوٹ یا پابندی کے محفوظ طریقے سے سنجیدہ معاملات پر بحث کر سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں لسانیات کے ماہرآندرےبیلٹراما کہتے ہیں کہ اس طرح کی تبدیلی کو "لغوی اختراع" کہا جاتا ہے۔ وہ اور دیگر ماہرین سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جو ٹک ٹاک استعمال نہیں کرتے، انہیں خودکشی، جنسی زیادتی اور قتل کے بارے میں ایسے نئے نئے الفاظ کا استعمال پریشان کن معلوم ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ٹک ٹاکرز ،لفظوں کے ہیر پھیر سے بات چیت یا موضوع کی سنجیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوں ۔
بیلٹراما کا کہنا ہے "جو کوئی آن لائن بات چیت میں "ان الائیو" کے لفظ سے خودکشی یا قتل کے بارے میں بات کر رہا ہوتا ہے وہ یہ فرض کر رہا ہوتا ہے کہ دوسری طرف موجود شخص اس کی بات کی سنجیدگی سے واقف ہے ۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کےامریکی ادارے سی ڈی سی کے مطابق، امریکہ میں خودکشی، 10سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اموا ت کی دوسری بڑی وجہ ہے، اور 2000-2021 کے دوران اس عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ " Unalive" لفظ کا استعمال درحقیقت نوجوانوں کے درمیان زیادہ بامعنی بات چیت کا باعث بن سکتا ہے – انہیں ایک کمیونٹی ہونے اور اعتماد کا احساس دلاتا ہے جو انہیں ان بالغوں کے ساتھ محسوس نہیں ہوتا جو "خودکشی" یا "قتل" کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
بیلٹراما نے "Unalive " اور صدر بائیڈن کے لیے ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے ایک براڈ کاسٹر کی جانب سے بولے گئے جملے 'Let's go Brandon' کے درمیان مماثلت کا ذکر کیا ہے، جب ایک ہجوم کی جانب سے صدر بائیڈن کے لیے ناپسندیدگی کے اظہار کی تلخی کو براڈکاسٹر نے اس جملے سے سہارا دیا تھا۔ اسی طرح خودکشی یا قتل جیسے لفظوں کے لیے نوجوان نسل یہ آن لائن اصطلاح استعمال کرتی ہے ۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور اسٹینفورڈ سینٹر فار یوتھ مینٹل ہیلتھ اینڈ ویل بینگ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر اسٹیون ایڈل شیم کا کہنا ہے کہ "نوجوان کافی سمجھدار ہوتے ہیں ،اور جب وہ " ان الائیو" کا کوڈ ورڈ استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں ۔"
واشنگٹن، ڈی سی میں ایک 30 سالہ معالج امبر سیموئلز، نے اپنے سوشل اکاؤنٹس میں "ان الائیو" کا لفظ استعمال کیا ہے، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے کلائنٹس کو اس کا استعمال کرتے ہوئے سنا ہے۔ ان کے نزدیک، "یہ غیر معمولی یا اجنبی محسوس نہیں ہوتا ہے۔"
اپنے آرٹیکل میں جیف میک ملن لکھتے ہیں ،" نوجوان جو ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے جب دائیں بائیں اپنے کرداروں کو مارتے تھے تو مرنے والے روتے ہوئے کہتے تھے کہ ہائے میں مر گیا لیکن اب انہوں نے بھی چیٹ رومز اور گیمنگ رومز میں مرنے کے بجائے "ان الائیو" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ "
میک ملن لکھتے ہیں کہ بچوں کی ہمیشہ اپنی بول چال ہوتی ہے، لیکن آج کے نوجوان ڈیجیٹل کی دنیا میں سانس لیتے ہیں اور مسلسل ہونے والی تبدیلیوں اور معلومات کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔
ایملی لٹ مین اس بارے میں ملے جلے جذبات رکھتی ہیں کہ آیا "ان الائیو" لفظ کے استعمال سے خودکشی کا حوالہ دینے میں مدد مل سکتی ہے یا تکلیف، لیکن وہ کہتی ہیں کہ بچے کم از کم اس کے بارے میں بات تو کر رہے ہیں اور خاص طور پراگر خودکشی کو "ان الائیو " کہہ کر ایک جدوجہد کرنے والا نوجوان مدد مانگنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے تو یہ برا سودا نہیں ہے کیونکہ بقول ایملی ،آج کی نوجوان نسل ایسے موضوعات پر ان کی نسبت زیادہ آسانی سے بات کرتی ہے۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے )