رسائی کے لنکس

بھارت میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ، مزدوروں کی تعداد زیادہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں قومی سطح پر جرائم سے متعلق اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ’نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو‘ (این سی آر بی) کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2014 کے بعد سے خودکشی کے رجحان میں تیز ی سے اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال 2021 میں بڑی تعداد میں خود کشی کے واقعات ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2021 میں ایک لاکھ 64 ہزار 33افراد نے خودکشی کی۔ ان میں سے ایک چوتھائی تعداد یعنی25.6 فی صد وہ مزدور تھے جو یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے تھے۔ خود کشی کرنے والے ان مزدوروں کی مجموعی تعداد 42 ہزار چارتھی۔ 2020 میں بھی یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والے محنت کشوں کی خودکشی کی شرح زیادہ تھی۔

بھارت میں 2020 میں کل ایک لاکھ 53 ہزار 52 افراد کی خود کشی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 37 ہزار چھ سو 66 تھی جو کہ مجموعی خود کشی کے واقعات کی 4.6 2فی صد واقعات بنتے ہیں جب کہ 2019 میں خود کشی کرنے والے مزدوروں کی شرح 23.4 فی صد تھی۔

رپورٹ سے واضح ہو رہا ہے کہ قومی سطح پر خودکشی کے واقعات کے مقابلے میں مزدوروں میں خودکشی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2020 اور 2021 میں خودکشی کے عام رجحان میں جہاں 7.17 فی صد کا اضافہ ہوا جب کہ مزدور طبقے میں خود کشی کے رجحان میں 11.52 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔

سماجی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں خودکشی کے رجحان میں اضافے کے متعدد اسباب ہیں۔ یہاں زندگی گزارنے کے سلسلے میں جو مروجہ طریقے رہے ہیں، ان میں تبدیلی آئی ہے، جس کا عام انسان کی زندگی پر اثر پڑا ہے جب کہ مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

مختلف شعبہ جات میں سروے کرنے والے ادارے ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ ہلال احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خود کشی کے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ 30 برس کے حالات پر نظر ڈالنا ہوگی۔

ان کے خیال میں اس دوران ایسے حالات پیدا ہوئے، جو ان واقعات میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔

خود کشی کے لئے بدنام سان فرانسیسکو کا گولڈن گیٹ برج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:12 0:00

ماہرین کے مطابق 2014 کے بعد سے خودکشی کے واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت اس بات پر زور دینے لگی کہ نوکری مانگنے کے بجائے نوکری دینے والے بنو یعنی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے حصول کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے مواقع بھی کم ہو رہے ہیں۔

ہلال احمد کے مطابق یہ حقائق چوں کہ پہلی بار عام ہوئے ہیں، اس لیے چونکاتے ہیں لیکن نفسیاتی عوارض کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہاں ان واقعات میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔

وہ ان واقعات میں اضافے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر اس کے چار اسباب ہیں۔ اب یومیہ مزدوروں کے لیے کام کم ہو گیا ہے۔ مہنگائی میں سات سے آٹھ فی صد کا اضافہ ہویا ہے۔ مزدور طبقہ کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان پر بحث و مباحثے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ مذہب کے بارے میں عوامی تاثر بدل گیا ہے اور اب مذہب کو سیاست زدہ کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول مذہب سے ملنے والے ذہنی سکون سے آج کا انسان محروم ہے۔

تاہم وہ اس رجحان کو مہنگائی سے بھی جوڑ کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تیل اور سبزی کی بھی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں تو ایک مزدور اپنا اور اپنے اہل خانہ کی دیکھ بھال کیسے کرے گا؟ ان حالات میں اس مزرود کو خودکشی ہی ایک راستہ نظر آتا ہے۔

ان کے مطابق ان حالات نے جہاں یومیہ مزدوروں اور غیر منظم شعبے میں کام کرنے والوں میں مایوسی پیدا کی ہے، وہیں ان میں جرائم کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دہلی میں گھریلو ملازموں کے ہاتھوں اپنے مالکوں کو ہلاک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے خیال میں جب انسان کے پاس اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے وسائل نہیں ہوں گے تو وہ یا تو جرم کرے گا یا پھر خود کشی کا سوچے گا۔

ہلال احمد نے مزید کہا کہ شہروں میں مزدوری کرنے والے یا گھروں میں کام کرنے والے بیشتر افراد دیہی علاقوں کے ہوتے ہیں۔ وہ روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور پھر اپنی ضرورتوں کی کم سے کم تکمیل کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب وہ امیر اور غریب طبقات کے معیار ِزندگی میں زمین آسمان کا فرق پاتے ہیں، تو ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں گھریلو ملازموں کے ہاتھوں مالکوں کو ہلاک کرنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔

امریکی کالج ایتھلیٹس میں خود کشی کا رجحان
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:35 0:00

ان کے مطابق دہلی میں دو تین دہائیوں کے درمیان ملازموں کے ہاتھوں سیریل کلنگ کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں پہلے کسانوں کی خودکشی کے واقعات ہوتے تھے۔ کسان اب بھی خودکشی کر رہے ہیں۔ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں یومیہ 10 س سے زائد کسان خودکشی کرتے ہیں لیکن اب یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں میں بھی یہ رجحان بڑھنے لگا ہے جو کہ باعثِ تشویش ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو اس سلسلے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

بعض سماجی و نفسیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا وبا نے بھی یومیہ مزدوروں اور غیر منظم شعبوں سے وابستہ کارکنوں کے یومیہ مسائل میں اضافہ کیا ہے۔

ایک یورپی سوشل سائٹ ’ریسرچ گیٹ‘ کے مطالعے کے مطابق بھارت میں کرونا وبا نے لاکھوں مزدوروں کی زندگی کو متاثر کی۔ اس وبا کی وجہ سے بھارت کی معیشت کو دھچکا لگا جس کے سبب مزدوروں کے لیے بھی روزی روٹی کا انتظام مشکل ہو گیا ہے۔

ہلال احمد کے مطابق کرونا کی وبا نے بھی خودکشی کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے مزدوروں کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ

رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم کےچار لاکھ 28 ہزار 278 مقدمات درج ہوئے جب کہ 2020 میں ایسے مقدمات کی تعداد تین لاکھ 71 ہزار 503 تھے یعنی گزشتہ سال خواتین کے خلاف جرائم میں 15.3 فی صد اضافہ ہوا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے ایک سبب تنگ دستی بھی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے مجرموں کے لیے سخت سزاؤں کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔

دہلی میں ہزاروں خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:44 0:00

دارالحکومت نئی دہلی میں خواتین کے خلاف سب سے زیادہ جرائم ہوئے۔

نئی دہلی میں 2021 میں خواتین کے خلاف جرائم میں مجموعی جرائم کے مقابلے میں 147.6 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

سال 2019 میں 13 ہزار 395 کیسز رجسٹر ہوئے تھے جب کہ 2021 میں 14 ہزار 277 واقعات رپورٹ ہوئے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دہلی میں یومیہ دو کم عمر بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ دہلی خواتین کے لیے ملک کا سب سے غیر محفوظ مقام بن گیا ہے۔

دہلی کے بعد ممبئی میں سب سے زیادہ جرائم ہوئے۔ وہاں گزشتہ سال پانچ ہزار 543 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ بنگلورو میں 3127 رپورٹ ہوئے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG