پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں دو مئی کو پولیس کی جانب سے تین شدت پسندوں کو گرفتار کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا جن کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ یا 'داعش' سے بتایا گیا۔
اس کارروائی کے بعد سیکیورٹی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی سندھ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کے ذمے دار شدت پسند گروہ کو کمزور کر دیا گیا ہے۔
دو مئی کی کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے شکار پور کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر کامران نواز نے کہا کہ حیدرآباد اور سکھر کی پولیس نے وفاقی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ مل کر سلطان کوٹ کے علاقے میں کارروائی کی۔
اُن کے بقول خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی اس کارروائی میں خالد محمود پندرانی عرف امیر حمزہ، عثمان بروہی اور صدیق بروہی نامی تین مبینہ شدت پسند گرفتار کر لیے گئے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ گرفتار خالد محمود پندرانی فروری 2019 میں بلوچستان کے ضلع سبی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے والے اہم شدت پسند رہنما عبدالحفیظ پندرانی (جو حفیظ بروہی کے نام سے مشہور تھے) کے بھائی ہیں۔
پولیس کے مطابق ملزم بارودی مواد کی ترسیل، پولیس مقابلے اور اقدامِ قتل کے ساتھ ساتھ علاقے میں دہشت گردی کے واقعات میں سہولت کاری کے الزامات کے تحت پولیس کو مطلوب تھا۔
حفیظ پندرانی کون تھا؟
تجزیہ کاروں کے مطابق شمالی سندھ کے کچھ علاقے کئی سالوں تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے مرکز رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے دیگر علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور اس سے متصل قبائلی اضلاع، بلوچستان اور کراچی کی طرح سندھ کے یہ علاقے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔
البتہ، جنوری 2015 میں شکارپور شہر کے وسط میں قائم امام بارگاہ پر نمازِ جمعہ کے دوران خودکش حملے کے بعد شمالی سندھ میں حفیظ پندرانی گروہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ کا مرکز بنا۔
مذکورہ واقعے کی ذمے داری داعش نے قبول کی جس میں 61 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے شکارپور کے ہی رہائشی حفیظ پندرانی کی سربراہی میں فعال مقامی گروہ کی ہی کارروائی قرار دے رہے تھے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق کالعدم جیشِ محمد سے وابستہ شکار پور کے نوجوانوں پر مشتمل حفیظ پندرانی اور اس کے گروہ کے اراکین کا 1998 سے افغانستان میں بھی آنا جانا تھا۔
پولیس حکام کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس گروہ نے اپنی تخریبی کارروائیوں کا آغاز شکار پور میں مرکزی شاہراہ پر کراچی سے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی پر حملوں سے کیا۔
خیال رہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو افواج کے جنگی سازو سامان، تیل اور دیگر اشیا پاکستان کے راستے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان سے واپسی پر حفیظ پندرانی نے کالعدم فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی میں شمولیت اختیار کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شکارپور کے دو دیہات 'خالق پندرانی' اور 'حاجی خواستی' سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پرمشتمل اس گروہ نے اس وقت کے لشکرِ جھنگوی کے سندھ و بلوچستان کے امیر آصف چھوٹو کے ساتھ الحاق کیا تھا اور شمالی سندھ میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
حفیظ پندرانی کا ایک بھائی افغانستان میں شورش کے دوران مارا گیا جب کہ دوسرا بھائی 2010 میں شکارپور میں ایک خودکش حملے کی کوشش میں مارا گیا۔ اس نے نیشنل پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی رہائش گاہ پر یومِ عاشور کی مجلس کو نشانہ بنایا تاہم پولیس کی بروقت کارروائی پر اس نے خود کو اُڑا لیا۔
شمالی سندھ میں دہشت گردی کے بڑے واقعات
سیکیورٹی حکام کے مطابق اس خودکش حملے کے بعد حفیظ پندرانی نے شمالی سندھ کے اضلاع خصوصاً شکار پور، جیکب آباد اور سکھر میں خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی متعدد کارروائیاں کیں۔
جنوری 2013 میں شکارپور شہر سے 10 کلومیٹر دور واقع درگاہ غازی شاہ میں نصب ایک بم دھماکے میں گدی نشین پیر حاجن شاہ سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔
اس واقعے کے اگلے ہی ماہ فروری میں جیکب آباد میں بریلوی مسلک کے پیر سائیں حسین شاہ (جو قمبر والے پیر کے نام سے مشہور ہے) کی گاڑی کے قریب بم دھماکہ کیا گیا تھا، جس میں وہ محفوظ رہے تاہم ان کا پوتا ہلاک ہو گیا تھا۔
مئی 2013 میں شکار پور میں ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے انتخابی قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا لیکن بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ رہے۔
سکھر میں جولائی 2013 میں پاکستان کے خفیہ ادارے کے دفتر پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں دو خودکش بمباروں سمیت آٹھ افراد ہلاک اور 50 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
جنوری 2015 میں شکارپور کی امام بارگاہ پر کیے گئے خودکش حملے میں 61 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اسی سال اکتوبر میں جیکب آباد کے علاقے لاشاری میں ماتمی جلوس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
دسمبر 2016 میں شکارپور میں ہی شیعہ کمیونٹی کے ایک اجتماع پر خودکش حملے کی کوشش کو وہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔ اس حملے میں 13 افراد زخمی جب کہ خودکش حملے کرنے میں ناکام شدت پسند گرفتار ہوا۔
فروری 2017 میں سہون میں واقع حضرت لعل شہاز قلندر کے مزار پر ایک خودکش حملے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک اور دو سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے۔
اسی برس 2017 میں خودکش حملہ آور نے ضلع شہداد کوٹ سے متصل بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں پیر رکھیل شاہ کے مزار کو نشانہ بنایا جہاں 20 افراد ہلاک ہوئے۔
مختلف شدت پسند تنظیموں سے تعلق
حفیظ پندرانی اور ان کے ساتھی مولوی عبداللہ بروہی کا نام سندھ کی انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کی جانب سے شائع کردہ ریڈ بک میں بھی شامل رہا جن میں حکومت کو مطلوب ترین شدت پسندوں کے نام، تصاویر اور دیگر تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔
حکومت نے حفیظ پندرانی پر ایک کروڑ جب کہ عبداللہ بروہی پر 50 لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا تھا۔
شمالی سندھ میں تعینات رہنے والے حساس ادارے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حفیظ پندرانی کا یہ گروہ بطور 'فری لانس' ایک سے زیادہ شدت پسند تنظیموں کے لیے کام کرتا تھا۔ اُن کے بقول ان میں لشکرِ جھنگوی کے ساتھ ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) اور بعد میں داعش بھی شامل تھی۔
افسر کے بقول "حفیظ پندرانی گروہ نے باقاعدہ داعش سے الحاق کا اعلان نہیں کیا مگر وہ اس گروہ کے سندھ میں اہم رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے۔"
ستمبر 2016 میں ایک 18 سالہ نوجوان شیعہ کمیونٹی کے نمازِ عید کے اجتماع کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش میں گرفتار ہوا۔
دورانِ تفتیش مذکورہ نوجوان نے انکشاف کیا کہ حفیظ پندارنی گروہ کے افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹٰی ٹی پی) کے اس وقت کے سربراہ ملا فضل اللہ سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق سوات سے تعلق رکھنے والے اس 18 سالہ نوجوان کو ملا فضل اللہ نے حفیظ پندرانی کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ شیعہ کمیونٹی پر خودکش حملہ کرے۔
کریک ڈاؤن میں 'کامیابی'
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حفیظ پندرانی گروہ کے خلاف کامیابی اس وقت ملی جب گروہ کے ایک مبینہ کمانڈر مولوی عبدالحمید پندرانی کو اکتوبر 2017 میں مقابلے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عبدالحمید پندرانی سے تفتیش کے دوران حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں نے مل کر حفیظ پندرانی گروہ کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور اس دوران گروہ میں شامل کئی شدت پسندوں کی گرفتاری کے دعوے کیے گئے۔
فروری 2019 میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مشترکہ کارروائی میں حفیظ پندرانی اور مولوی عبداللہ بروہی بلوچستان کے علاقے سبی میں ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے۔
پولیس نے ان کی ہلاکت کے موقع پر انکشاف کیا کہ مولوی عبداللہ بروہی داعش سندھ کے امیر اور حفیظ پندرانی نائب امیر تھے۔
شمالی سندھ میں شدت پسندی میں نمایاں کمی
اسلام آباد کے سیکیورٹی تھنک ٹینک 'پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز' کے سربراہ محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں شمالی سندھ میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی ہے جس کی اہم وجہ حفیظ پندرانی کی ہلاکت ہے۔
شمالی سندھ میں مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر کام کرنے والے ایک ادارے سے وابستہ سماجی کارکن شفقت جتوئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2010 سے حفیظ پندرانی کی ہلاکت تک ہر سال ایک یا دو بڑے خودکش حملے اس خطے میں ہوتے تھے جن کا ہدف شیعہ کمیونٹی یا بریلوی مکتبۂ فکر کے پیر ہوتے تھے۔
شمالی سندھ میں شدت پسندی کو کیسے فروغ ملا؟
سندھ کا شمالی حصہ جیکب آباد، شکارپور، کشمور، گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ اور لاڑکانہ پر مشتمل ہے اوران کی سرحدیں بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے ملتی ہیں۔
محمد عامر رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی سندھ ایک جانب جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقے اور دوسری جانب بلوچستان سے منسلک ہے جس کی وجہ سے ان سارے خطوں میں فعال شدت پسند گروہوں میں رابطے پائے جائے تھے۔
تجزیہ کاروں کا بھی یہ کہنا ہے کہ شمالی سندھ میں غربت، قانون کی کمزور عمل داری، قبائلی لڑائیاں اور ڈکیتوں کے گینگز کی موجودگی جیسے عوامل شدت پسند گروہوں کو فعال ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
شفقت جتوئی کا کہنا ہے کہ غربت کی انتہا، بے روزگاری، تعلیم و صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے بھی یہ علاقہ سندھ کے دیگر خطوں سے کافی پیچھے ہے۔
شفقت جتوئی کے بقول حکومتوں میں شامل با اثر سردار خطے میں قبائلی لڑائیوں کے علاوہ، ڈاکوؤں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حفیظ پندرانی جیسے گروہ نوجوانوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں۔