حکومت نے اپوزیشن کی تمام تر کوششوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ کے لیے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر رضا مند ہوگئی ہے۔
اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت ہوئی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس بات پر اتفاق کرلیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ہی چیئرمین پی اے سی ہوں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ فیصلہ بھی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور کے ’آڈٹ پیراز‘ کا جائزہ لینے کیلئے ذیلی کمیٹی بنائی جائے گی، جس کا چیئرمین حکومت کے کسی نمائندے کو بنایا جائے گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کرنے کا اختیار اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اپوزیشن اپنی ضد پر قائم ہے تو حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
شہباز شریف پر نیب کیسز ہونے کی وجہ سے حکومت انہیں چیئرمین پی اے سی بنانے پر تیار نہیں تھی۔ تاہم، اب انہیں جس پر اعتماد ہو اسے چیئرمین بنا دیا جائے گا۔
ایوان میں تقریر کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں ضد اور انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئیے۔ وزیر اعظم سے اس ایشو پر بات ہوتی رہی ہے ہم آج بھی وزیر اعظم سے ملے ہیں ان سے گزارش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے بات بھی ہوئی۔ لیکن وہ اپوزیشن لیڈر کے نام پر بضد رہی۔ اگر کمیٹیاں نہیں بنتیں تو پارلیمنٹ مکمل نہیں ہوتی۔ اہم قانون سازی درکار ہے جس کا تعلق عوام سے ہے۔ اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ جمہوری تقاضہ یہی ہے کہ اپوزیشن لیڈر پر معاملہ چھوڑ دیا جائے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم فراخدلی دکھائیں گے اور اپوزیشن لیڈر کسی کو بھی نامزد کر دیں۔
اس حوالے سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی پی اے سی کی چئیرمین شپ ایک روایت بن چکی ہے۔ تمام اپوزیشن ارکان نے مجھے عزت دی اور نامزد کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’نیب اور پی ٹی آئی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی اندھا نہیں بلکہ عقل کا اندھا بھی اس احتسابی عمل کو دیکھ سکتا ہے جو اپوزیشن کے خلاف ہو رہا ہے۔ اس وقت نیب کا یہ پتھر صرف میرے لیے نہیں بلکہ حکومتی وزرا اور عمران خان کے راستے میں بھی ہے۔ لیکن، گرفتاریاں صرف اپوزیشن کی ہو رہی ہیں۔ وزیر دفاع پر مالم جبہ کا کیس ہے، بے شمار حکومتی ارکان کو نوٹسز موصول ہوئے ہیں۔ لیکن، کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’نیب قیامت تک میرے خلاف آدھے پیسے کی کرپشن سامنے لے آئے تو ہاؤس چھوڑ دونگا‘‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے کہا ہےکہ جمہوریت اور ایوان کے لیے اچھا قدم اٹھایا گیا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تشکیل کے بغیر ایوان نا مکمل ہے۔ ایوان کی توقیر اور عزت کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر چلنا ضروری ہے۔
سابق اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ عمران خان کا یہ مثبت یوٹرن ہے جس پر ہٹ دھرم اپوزیشن شکریہ ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں 123دن ضائع کیے اور اس عرصے میں قانون سازی نہ ہو سکی۔ شہباز شریف پی اے سی کے چئیرمین نہیں بننا چاہتے تھے۔ لیکن مشترکہ اپوزیشن کی خواہش تھی جس پر انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔‘‘
ایاز صادق نے کہا کہ پی اے سی میں صرف ’آڈٹ پیراز‘ آتے ہیں کوئی تحقیقات نہیں ہوتی اور ساتھ ہی جب اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر نواز شریف کے خلاف کوئی ’آڈٹ پیراز‘ آئے تو وہ رضاکارانہ طور پر ان کی جانچ نہیں کریں گے، ایسی صورتحال میں حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ کے معاملے پر اختلاف کی وجہ سے حکومت تین ماہ سے زائد عرصے تک قانون سازی سے محروم رہی اور ایوان میں کوئی خاص کام نہ ہوسکا۔ اب پی اے سی کا مسئلہ حل ہونے اور قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کی راہ ہموار ہونے سے امکان ہے کہ اہم قومی امور پر بات چیت ہو سکے گی۔