پاکستان میں ان دنوں پی آئی اے (پاکستان ایئرلائنز) کے ایئربس اے 310 طیارے کے متعلق خوب بحث گرم ہے اور اس جہاز کو بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کی بازگشت پارلیمان اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی سنی جارہی ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کی زیرِ صدارت ہوا جس میں سیکرٹری ایوی ایشن نے بتایا کہ جہاز کا ڈھانچہ بیچ دیا ہے لیکن انجن نہیں بیچا جسے واپس لائیں گے ۔
اجلاس کے دوران خورشید شاہ نے سوال کیا کہ جہاز چلا گیا تو انجن کیسے واپس آئے گا؟ قومی احتساب بیورو (نیب) اور متعلقہ حکام بتائیں کہ سابق چیئرمین پی آئی اے کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ انہوں نے نیب کو آئندہ ہفتے اس بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ایک سزا یافتہ شخص کو 15 لاکھ روپے ماہانہ پر چیف لیگل کنسلٹنٹ لگا دیا گیا۔ اکاؤنٹس کمیٹی نے چیف لیگل کنسلٹنٹ کی تعیناتی کی تفصیل طلب کرتے ہوئے پی آئی اے کے تمام افسران کے ٹی اے ڈی اے کی تفصیل بھی 24 گھنٹوں میں طلب کرلی۔
اجلاس کے دوران خورشید شاہ نے استفسار کیا کہ ایم ڈی پی آئی اے اجلاس میں کیوں نہیں آئے؟ جس پر سیکرٹری ایوی ایشن نے ایم ڈی کے نہ آنے پر معذرت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ساری غلط فہمی میری وجہ سے ہوئی ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ سسٹم بن گیا ہے کہ چور کامیاب اور صاف ستھرے لوگ ناکام ہیں، بوئنگ ٹرپل سیون کی اپ گریڈیشن کے ٹھیکے میں کنٹریکٹر کو 100 فیصد ایڈوانس دے دیا گیا ہے۔ ایسا ہمارے ملک میں ہی ہوتا ہے۔ جب ایڈوانس پورا دے دیا جائے تو پھر کام کون کرے گا؟ پی آئی اے نے 48 کروڑ روپے ایک سال میں دے دیے اور کوئی کام نہ ہوا۔
پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے ایک عرصہ سے بحران کا شکار ہے اور اب تک اس کا خسارہ چار سو ارب روپے سے بھی زائد ہوچکا ہے۔
بدانتظامی اور کرپشن کے باعث ہر سال ایئر لائن کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ سیاسی بھرتیوں کے باعث ایئرلائن کے ملازمین کی تعداد 18 ہزار سے زائد ہے جب کہ کارآمد جہازوں کی تعداد صرف 35 ہے۔
پی آئی اے کا ریٹائر ہونے والا ایک اے 310 طیارہ ایک عرصے سے غائب ہے جس کومبینہ طور پر ایئرلائن کے جرمن نژاد سابق سی ای او ہلڈن برانڈ نے فروخت کر دیا تھا۔
اس جہاز کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کو مالٹا میں ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے بھیجا گیا تھا جس کے بعد اسے جرمنی بھیج دیا گیا جہاں جرمن حکام اس جہاز کو کھڑا کرنے کا کرایہ مانگ رہے ہیں۔ لیکن یہ جہاز کس کوکتنے میں بیچا گیا اور رقم کہاں گئی، اب تک پی آئی اے حکام بتانے سے قاصر ہیں۔