رسائی کے لنکس

جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد مودی سے ملاقات کے بعد بھی مایوس


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں کا اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) حال ہی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس سے مایوس ہے۔

پی اے جی ڈی کے رہنماؤں نے شکوہ کیا ہے کہ 24 جون کو ہونے والے اجلاس سے قبل یا اس کے بعد جموں و کشمیر میں اعتماد سازی کے لیے نہ تو کسی طرح کے اقدامات اٹھائے گئے اور نہ اب تک وادی میں دباؤ کے ماحول میں کوئی فرق آیا ہے۔

پیر کو سری نگر کے سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کی رہائش گاہ پر پی اے جی ڈی کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس کے بعد پی اے جی ڈی کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ اتحاد علاقے کو دوبارہ ریاست کا درجہ دلانے اور مجوزہ اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے بات کرے گا۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے بھارتی پارلیمنٹ کے رکن جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر ہونے والا کُل جماعتی اجلاس توقعات کے منافی ثابت ہوا ہے۔

ان کے بقول، "ہمیں کسی بھی معاملے میں کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی اور اس کے نتائج کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان اب بھی موجود ہے۔"

حسنین مسعودی کہتے ہیں جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کو بحال کیے بغیر اسمبلی انتخابات کرانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

یاد رہے کہ پی اے جی ڈی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ چند دیگر علاقائی سیاسی جماعتوں اور ان کی حلیف مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پر مشتمل ایک اتحاد ہے۔

اس اتحاد کا بنیادی مطالبہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی اور اسے دوبارہ ایک مکمل ریاست کا درجہ دلانا رہا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے قبل پی اے جی ڈی کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کے تحت خطے میں حاصل خصوصی حیثیت اور نیم خود مختاری کو بحال کرانے کے عزم پر قائم ہے۔

پی اے جی ڈی کے مطابق یہ ایسی غیر آئینی اور ناقابلِ قبول تبدیلیاں ہیں جنہیں عوام پر مسلط کیا گیا جس کی بحالی کے لیے تمام اکائیاں مل کر جدوجہد کریں گی اور اس سلسلے میں تمام آئینی، قانونی اور سیاسی ذرائع کا استعمال کیا جائے گا۔

گپکار ڈیکلریشن اتحاد کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کُل جماعتی اجلاس مایوس کن تھا اور بظاہر لگتا ہے کہ بھارتی حکومت جموں و کشمیر میں تقریباً دو برس سے جاری سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے درکار اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانا نہیں چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ پی اے جی ڈی کے اجلاس کے شرکا کا یہ یکساں مؤقف اور رائے تھی کہ اگر سیاسی اور دوسرے قیدیوں کو رہا کیا جاتا، دھونس اور دباؤ کے ماحول میں کمی لائی جاتی تو اس طرح کے اقدامات سے عوام کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مدد ملتی۔

ان کے بقول مقامی جماعتیں جموں و کشمیر کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈرز ہیں اور مسئلے کے نتیجے میں انہوں نے بے حد مشکلات اٹھائی ہیں۔

’بھارتی صدر کے پاس آرٹیکل 370 ختم کرنے کا اختیار نہیں‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:55 0:00

یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے اس اجلاس میں جن چودہ ممتاز سیاست دانوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اُن میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، غلام نبی آزاد اور عمر عبد اللہ شامل تھے۔

علاوہ ازیں اجلاس میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کانگریس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور بعض علاقائی سیاسی جماعتوں کے زعماء بھی شریک تھے۔

دوسری جانب بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ، وزیرِ اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور علاقے کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے وزیرِ اعظم کی معاونت کی تھی۔

بھارتی حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟

بھارتی وزیرِ اعظم نے اجلاس کے شرکاء کو یقین دلایا تھا کہ اُن کی حکومت علاقے کے مکمل ریاستی درجے کو بحال کرنے کے وعدے پر قائم ہے لیکن اس کی ترجیحات میں سابقہ ریاست میں تعمیر و ترقی کے کاموں میں تیزی لانا اور جمہوریت کی مکمل بحالی شامل ہیں۔

انہوں نے گپکار ڈکلریشن الائنس کے رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں مقامی اسمبلی اور بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے حلقوں کی نئی حلقہ بندی کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ کی ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کیے گئے کمیشن سے تعاون کریں۔

بھارتی حکومت نئی حلقہ بندی کے بعد علاقے میں اسمبلی انتخابات کرانے کی خواہش مند ہے۔

جتیندر سنگھ نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ جموں و کشمیر میں چوں کہ حفاظتی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے اور وزیرِ اعظم چاہتے ہیں کہ وہاں اسمبلی انتخابات جلد سے جلد کرائے جائیں۔ ان کے بقول اس سے پہلے انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کے کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والی تمام جماعتوں نے نئی حلقہ بندیوں میں شامل ہونے کی حامی بھری اور اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ جموں و کشمیر کو تشدد سے مکمل طور پر پاک کر کے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

انہوں نے وزیرِ اعظم مودی سے یہ الفاظ بھی منسوب کیے تھے کہ ’جموں و کشمیر میں امید کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہے جہاں جمہوریت کی آبیاری اور جمہوری اداروں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے سب کا تعاون درکار ہے۔‘

دوسری جانب پی اے جی ڈی نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام نہ تو ان کے لیے اور نا ہی جموں و کشمیر کے عوام کے لیے قابلِ قبول ہیں۔

واضح رہے نریندر مودی حکومت کے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے متنازع اقدام کے خلاف پی اے جی ڈی کی اہم اکائی نیشنل کانفرنس اور کئی دوسری جماعتوں اور افراد نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں جن پر سماعت تاخیر کا شکار ہے۔

بھارتی حکومت اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بار ہا یہ اعلان کر چکی ہے کہ آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو بحال نہیں کیا جائے گا اور نہ سابقہ ریاست کو کسی طرح کی اندرونی خود مختاری دی جاسکتی ہے۔

تاریگامی نے وی او اے کے اس استفسار پر کہ، کیا بھارتی حکومت اپنے اعلان سے پیچھے ہٹے گی، کہا کہ 'ہمارا ایک اور اجلاس ہونے والا ہے جس میں اس معاملے پر مزید غور و خوض کیا جائے گا۔'

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG