پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے دو طرفہ تجارتی سمجھوتے پر حکومت کو کاروباری و سیاسی حلقوں کی طرف سے کڑی تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اُن کا الزام ہے کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو دی گئی رعائتیں پاکستان کے اقتصادی مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں۔
گذشتہ اتوار کو اسلام آباد میں پاکستانی اور افغان عہدے داروں کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر افغان ٹرانزٹ ٹرید ایگریمینٹ سے متعلق طرفین نے ایک طویل عرصے کے بعد تمام بڑے اختلافی اُمور حل کرنے کے علاوہ کئی دہائیوں کے بعد پاکستان کے راستے بھارت کو افغان اشیاء کی برآمد کی اجازت دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ پاکستانی اور افغان وزرائے تجارت کے درمیان اس سمجھوتے پردستخط کی تقریب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن بھی موجود تھیں۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پاک افغان تجارتی راہداری کے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کی جانے والی تنقید بے جا ہے اور ان کے بقول کابینہ سے اس معاہدے کی منظوری حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستانی وزیر تجارت امین فہیم نے اس معاہدے پر دستخط کے بعد مقامی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ دو طرفہ معاہدے کے تحت نہ صرف افغان حکومت اپنی اشیاء بھارت کو برآمد کرسکے گی بلکہ لاہور کے قریب واہگہ بارڈر سے بھارتی برآمدات افغان ٹرکوں کے ذریعے افغانستان تک لے جانے کی اجازت بھی ہوگی ۔ لیکن وزیر تجارت کے اس بیان کے تھوڑی دیر بعد اپوزیشن جماعتوں اور کاروباری حلقوں نے پاک افغان معاہدے پر شدید ردعمل کا اظہار شروع کر دیا اور الزام لگایا کہ امریکی دباؤ میں بھارت کو رعائتیں دینے کی اس کوشش کی سخت مخالفت کی جائے گی۔
تاہم اتوار کو رات گئے حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں واضح کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت بھارتی اشیاء کو پاکستان کے راستے افغانستان لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
پاکستان میں ناقدین کا کہنا ہے کہ پاک افغان تجارتی معاہدے کے تحت برآمدی سامان سے بھرے افغانستان کے ٹرکوں کو واہگہ بارڈر تک راہداری دینے سے پاکستانی ٹرک ڈرائیور اور 1965ء سے افغان اشیاء کی ترسیل سے وابستہ لاکھوں افراد کی بے روزگاری کا خدشہ ہے اور حکومت کے اس فیصلے سے سمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کے بقول تجارتی معاہدے کا اصل مقصد ہی منشیات اور دوسری اشیاء کی پاکستان کے راستے غیر قانونی ترسیل کی حوصلہ شکنی ہے۔
اس وقت افغانستان سے اوسطََ 15 سو پاکستانی ٹرک روزانہ تعمیراتی مواد اور خوراک کا سامان لے کر جاتے ہیں جب کہ واپسی پر انھیں ٹرکوں میں افغان خشک میوے اور تازہ فروٹ لاد کر پاکستانی منڈیوں اور دوسرے ملکوں کو برآمد کیا جاتا ہے۔
کابل میں منگل کو ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شریک امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور خود افغان صدر نے پاکستان اور افغانستان کے تجارتی معاہدہ کے دو طرفہ تعلقات اور علاقے میں اقتصادی ترقی کے لیے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔