پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد پر سکیورٹی مزید سخت کر دی ہے اور سرکاری میڈیا کے مطابق اضافی بھاری توپ خانہ بھی سرحدی علاقوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے یہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
اُدھر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت پیر کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سکیورٹی کی صورت حال پر غور کیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک۔افغان سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کا مقصد مشترکہ دشمن سے لڑنا ہے، جس میں ہر طرح کے ’’دہشت گرد‘‘ شامل ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور ان کوششوں کو مشترکہ طور پر جاری رہنا چاہیئے۔
بیان کے مطابق فوج کے سربراہ نے افغانستان کے ساتھ سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے اور افغان سکیورٹی فورسز سے تعاون کی ہدایت کی اور کہا کہ اس کا مقصد دہشت گردوں اور ہر طرح کی غیر قانونی نقل و حرکت روکنا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردی کے خلاف بامعنی کوششوں اور تعاون کے لیے افغان عہدیداروں کی تجاویز کا خیر مقدم بھی کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان میں ہونے والے مہلک خودکش بم دھماکوں کے بعد پاکستان نے افغانستان سے اپنی سرحد ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے بند کر دی تھی، جس سے ناصرف دونوں جانب سفر کرنے والے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ تاجر بھی اس صورت حال سے پریشان ہیں۔
پاکستان کی طرف سے یکطرفہ طور پر سرحد بند کرنے پر افغان حکام نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام سفارتی آداب کے منافی ہے۔
حالیہ دہشت گرد حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی تھی اور پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم کی قیادت سرحد پار افغانستان میں موجود ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی فوج نے ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر افغان سفارت خانے کے اعلیٰ عہدیداروں کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ میں بلا کر اُنھیں 76 دہشت گردوں کی ایک فہرست فراہم کی تھی، اور کہا گیا کہ یہ شدت پسند افغانستان میں روپوش ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل قدم شاہ شاہیم کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان نے جو فہرست فراہم کی ہے اُس کا جائزہ لیا جائے گا، تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
افغانستان کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود افغان طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرے۔ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش بم حملے سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
دہشت گرد حملوں کی تازہ لہر کے بعد پاکستان نے ملک بھر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ کا فیصلہ کیا اور ایسی کارروائیوں میں حکام کے مطابق اب تک 100 سے زائد ’’دہشت گرد‘‘ مارے جا چکے ہیں۔
جب کہ مشتبہ شدت پسندوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن پیر کو بھی جاری رہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں کی گئی چھاپہ مار کارروائیوں میں افغان باشندوں سمیت لگ بھگ چار سو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جن میں سے 200 سے زائد کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی سے گرفتار کیا گیا۔