اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں تناؤ برقرار ہے اور پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک مرتبہ پھر پڑوسی ملک افغانستان کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
خواجہ آصف نے پیر کی شام پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں ایک بیان میں الزام لگایا کہ پاکستان میں حملہ کرنے والے شدت پسندوں کی پناگاہیں افغانستان میں ہیں۔
اُنھوں نے ایسے حالات میں پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کرنے کا دفاع بھی کیا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
افغان عہدیداروں کی طرف سے بھی پاکستان کے بارے میں ایسے ہی الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کی پناہ گاہیں پاکستانی سرزمین پر ہیں۔
اُدھر رواں ہفتے بھارت میں ہونے والی انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک کانفرنس میں افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی حنیف اتمر نے بھی ایک بار پھر یہ الزام لگایا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جن کے خلاف پاکستانی حکومت کو کارروائی کرتے ہوئے ختم کرنا چاہیئے۔
پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور پاکستان میں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کا سامنا ہے اور امن کے حصول کے لیے الزام تراشی نہیں بلکہ تعاون کی راہ اختیار کرنا ہو گی۔
پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا فائدہ شدت پسند اٹھا سکتے ہیں۔
’’جب دو ریاستوں کے درمیان معاملات خراب ہوتے ہیں تو فائدہ غیر ریاستی عناصر ہی کو ہوتا ہے، جن کے اپنے مفادات ہیں۔۔۔ تو جب کشیدگی بڑھے گی تو ظاہر ہے فائدہ شدت پسند تنظیموں، دہشت گردوں کو ہی ہو گا۔۔۔۔ میرے خیال میں جو بنیادی بات ہے وہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کا بہتر ہونا ہے۔‘‘
اُدھر پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں پختونوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے کا معاملہ پارلیمان میں بھی زیر بحث آیا۔
حالیہ ہفتوں میں ذرائع ابلاغ خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ صوبہ پنجاب میں پختونوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔
تاہم وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آپریشن صرف دہشت گردوں کے خلاف ہو رہا ہے۔
’’میں وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ نسلی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہو رہی ہے۔‘‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’’دہشت گردی پاکستان بھر میں کسی ایک صوبے یا نسل تک محدود نہیں ہے۔۔۔۔ دہشت گردوں کا نا کوئی مذہب ہے، نا کوئی نسل ہے، نا کوئی صوبہ ہے۔‘‘
پاکستان میں فروری کے وسط میں ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد حملوں میں 120 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
ان حملوں کے بعد ملک بھر میں ’ردالفساد‘ کے نام سے نیا آپریشن شروع کیا گیا، جس کے تحت ملک بھر میں کارروائیاں جاری ہیں۔