وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے بلوچستان میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا ’’پروپیگنڈا‘‘ کیا جا رہا ہے۔
قوم پرست بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی حکومتی پیشکش دہراتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں مصالحت کی حکمت عملی پر یقین رکھتی ہیں۔ لیکں وزیر داخلہ نے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے بعض بلوچ رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
’’جب اقوام متحدہ میں جاتے ہیں، اپنی شیڈو کابینہ بناتے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے ... یا تو یہ کہو کہ ہم پاکستانی ہیں پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ہمیں ہمارے حقوق دو اور جو حقوق مانگتے ہیں اگر ہم نہیں دیتے تو پھر بات کریں لیکن آپ نے نا مانوں کی رٹ لگا کر اپنی گردان پڑھنی ہے (تو) وہ نہیں ہونی چاہیئے۔‘‘
حکمران پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان کے مسائل کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے بلوچ رہنماؤں کے خلاف اس کے بقول سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ متفقہ سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے کُل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
لیکن حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اس مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کوششوں میں غیر سنجیدہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے اتوار کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جماعت کے تحفظات کو ایک مرتبہ پھر دہرایا۔
’’کل جماعتی کانفرنس میں شرکت تب ہی کی جائے گی جب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور(لاپتا) لوگوں کی بازیابی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ ہماری شرط ہے اور بڑی جائز شرط ہے جسے پورا ہونا چاہیئے۔‘‘
بلوچ سیاسی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی نے دو روز قبل نواز شریف سے ملاقات میں بلوچستان میں استحکام کے لیے اپنا آٹھ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا جس میں صوبے سے سرکاری فورسز کے مکمل انخلاء اور ہزاروں لاپتا افراد کی جلد از جلد بازیابی پر زور دیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد کو سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، اور سابق جج جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کیے گئے کمیشن کے مطابق لاپتا افراد کی تعداد محض 48 ہے جنھیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔