اسلام آباد —
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے اپنی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شہر کے مختلف رہائشی علاقوں میں ساڑھے سات ہزار سے زائد غیر قانونی فیکٹریاں قائم ہیں جہاں کوئی حادثہ بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
غیر قانونی فیکٹریوں میں سے 63 صنعتی یونٹ ایسے ہیں جہاں آتشزدگی کا شدید خطرہ ہے۔
صنعت اور سرمایہ کاری سے متعلق لاہور کے ضلعی افسر محمد اظہر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گھروں میں قائم ان غیر قانونی فیکٹریوں میں لگ بھگ 50 ہزار مزدور کام کرتے ہیں اور اب اگلے مرحلے میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
’’ہم نے پبلک سکیورٹی کو بھی تو یقینی بنانا ہے اس سے کسی کی حوصلہ افزائی ہو یا حوصلہ شکنی ہو اولین ترجیح تو عوام کی سکیورٹی ہے، اس کے بعد کوئی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے کہ آپ (ان فیکٹریوں) کو دوسرے علاقوں میں کوئی جگہ بنا دیں جہاں یہ کام کریں۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ صوبائی سطح پر بھی ایک کمیٹی قائم ہے جو پنجاب بھر میں قائم غیر قانونی صنعتوں کا جائزہ لے رہی ہے۔
عالمی ادارہ محنت یا آئی ایل او نے بھی حال ہی میں پاکستانی حکومت، صنعت کاروں اور مزدوروں کی نمائندہ تنظیم کے ہمراہ ملک میں فیکٹری ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دی ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔
آئی ایل او کے پاکستان میں سربراہ فرانچسکو ڈی او ویڈیو کا کہنا ہے کہ ملک میں پانچ کروڑ چالیس لاکھ ’لیبر فورس‘ ہے اور ان کے تحفظ کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کی ایک نمائندہ تنظیم ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ظہور اعوان کہتے ہیں کہ فیکٹریاں بناتے وقت مزدوروں کی حفاظت کے لیے تجویز کردہ اقدامات سے چشم پوشی کی جاتی ہے جو حادثات کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔
’’باہر نکلنے کے نا تو ہنگامی راستے ہوں اور نا ہی نیچے اترنے کے لیے سیڑھیاں اور جب ایسی چیزوں کو (نظر انداز) کیا جاتا ہے تو یہ حادثات کو موجب بنتی ہیں۔‘‘
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ کام کے دوران مزدوروں کی حفاظت سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر موثر عمل درآمد ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
کراچی اور لاہور کی دو فیکٹریوں میں رواں سال 11 ستمبر کو ایک ہی دن ہونے والی بدترین آتشزدگی میں لگ بھگ 300 افراد کی ہلاکت کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے ملک میں مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرزور مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
مزدوروں کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی میں 250 سے زائد مزدوروں کی ہلاکت کے اسباب جاننے کے لیے کی جانے والی تحقیقات کو جلد مکمل کیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں مزید موثر اقدامات کیے جا سکیں۔
غیر قانونی فیکٹریوں میں سے 63 صنعتی یونٹ ایسے ہیں جہاں آتشزدگی کا شدید خطرہ ہے۔
صنعت اور سرمایہ کاری سے متعلق لاہور کے ضلعی افسر محمد اظہر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گھروں میں قائم ان غیر قانونی فیکٹریوں میں لگ بھگ 50 ہزار مزدور کام کرتے ہیں اور اب اگلے مرحلے میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
’’ہم نے پبلک سکیورٹی کو بھی تو یقینی بنانا ہے اس سے کسی کی حوصلہ افزائی ہو یا حوصلہ شکنی ہو اولین ترجیح تو عوام کی سکیورٹی ہے، اس کے بعد کوئی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے کہ آپ (ان فیکٹریوں) کو دوسرے علاقوں میں کوئی جگہ بنا دیں جہاں یہ کام کریں۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ صوبائی سطح پر بھی ایک کمیٹی قائم ہے جو پنجاب بھر میں قائم غیر قانونی صنعتوں کا جائزہ لے رہی ہے۔
عالمی ادارہ محنت یا آئی ایل او نے بھی حال ہی میں پاکستانی حکومت، صنعت کاروں اور مزدوروں کی نمائندہ تنظیم کے ہمراہ ملک میں فیکٹری ورکرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دی ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔
آئی ایل او کے پاکستان میں سربراہ فرانچسکو ڈی او ویڈیو کا کہنا ہے کہ ملک میں پانچ کروڑ چالیس لاکھ ’لیبر فورس‘ ہے اور ان کے تحفظ کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کی ایک نمائندہ تنظیم ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ظہور اعوان کہتے ہیں کہ فیکٹریاں بناتے وقت مزدوروں کی حفاظت کے لیے تجویز کردہ اقدامات سے چشم پوشی کی جاتی ہے جو حادثات کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔
’’باہر نکلنے کے نا تو ہنگامی راستے ہوں اور نا ہی نیچے اترنے کے لیے سیڑھیاں اور جب ایسی چیزوں کو (نظر انداز) کیا جاتا ہے تو یہ حادثات کو موجب بنتی ہیں۔‘‘
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ کام کے دوران مزدوروں کی حفاظت سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر موثر عمل درآمد ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
کراچی اور لاہور کی دو فیکٹریوں میں رواں سال 11 ستمبر کو ایک ہی دن ہونے والی بدترین آتشزدگی میں لگ بھگ 300 افراد کی ہلاکت کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے ملک میں مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرزور مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
مزدوروں کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی میں 250 سے زائد مزدوروں کی ہلاکت کے اسباب جاننے کے لیے کی جانے والی تحقیقات کو جلد مکمل کیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں مزید موثر اقدامات کیے جا سکیں۔