رسائی کے لنکس

”پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر غیر اعلانیہ جنگ“


”پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر غیر اعلانیہ جنگ“
”پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر غیر اعلانیہ جنگ“

پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب معاملات میں پانی کے مسائل ایک سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں جب کہ پاکستان میں بعض ماہرین اور اپوزیشن رہنما ء یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس ضمن میں دونوں حریف ملکوں کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ۔

پاکستان کے انڈس واٹرکمشنر جماعت علی شاہ اس استدلال سے متفق نہیں اور وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تمام تر مسائل کا حل 1960ء کے سندھ طاس معاہدے میں موجود ہے بشرطیکہ اس کے قوائد و ضوابط پر پوری دیانتداری اور ذمے داری سے عمل کیا جائے۔

بشیراحمد ملک اقوام متحدہ کے سابق چیف تکنیکی مشیر اور سندھ طاس معاہدے پر ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ان کی رائے میں بھارت نے اپنے طرف جو آبی منصوبے شروع کر رکھے ہیں وہ اگلے پانچ سالوں کے دوران پاکستان کے لیے سنگین مسائل کو جنم دے سکتے ہیں اور ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق ”پاکستان میں گندم کی بیجائی کا موسم 15اکتوبر سے 30نومبر ہوتا ہے اور اس دوران اگر بھارت صرف دس روز کے لیے بھی اپنے یہاں سے پانی کا بہاؤ روک لے تو پاکستان کا کروڑوں ایکڑ رقبہ متاثر ہو سکتاہے“۔

بشیر ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو محض سندھ طاس معاہدے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس سلسلے میں بھارت کو ایک سیاسی انتباہ کرتے ہوئے مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر جانا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قبل از وقت موٴثر اقدامات اٹھانا ہوں گے کیوں کہ ہر سال ملکی آبادی میں 30لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جن کے لیے پانی کی دستیابی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور یوں آئندہ سالوں کے دوران کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والی ممبر قومی اسمبلی ماروی میمن کے خیالات بھی مختلف نہیں ہیں اور ان کے بقول بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی شرائط سے مبینہ انحراف دونوں ملکوں کو ایک تصادم کی طر ف لے کر جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ ملا کر بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک موٴثر اور متحرک لائحہ عمل وضع کرنا چاہیئے تاکہ آگے چل کر کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے پوری طرح ہوش مند اور 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے دائرے میں رہ کر معاملات کو طے کر نے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے۔

بھارت کی طرف سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جماعت علی شاہ نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے نئی دلی کو آگاہ کر دیاہے کہ وہ عالمی عدالت ثالثی یا عالمی بینک کے غیر جانب دار ماہر سے رجوع کرنے جا رہا ہے۔ منصوبے کے حوالے سے تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ”بھارت دریائے نیلم سے پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرا ٓباد میں آنے والے پانی کا رخ دریائے جہلم کے ذریعے تبدیل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کا نیلم ۔جہلم منصوبہ متاثر ہو گا، توانائی کی کمی ہو گی جب کہ ماحولیاتی اثرات اس کے علاوہ ہو ں گے ۔

جماعت علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے پانی کو بجلی کی پیداوار کے استعمال پر اعتراض نہیں لیکن اس کے بہاؤ کو روکنا یا اس کا رخ تبدیل کرنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یہ معاملہ ابھی تک دونوں ملکوں کے کمیشن کی سطح پر حل نہیں ہو سکا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انڈس واٹر کمیشنرکا کہنا تھا کہ تمام تراختلافات کے باوجود 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے دونوں ملک اپنے اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ دستاویز ہے جو دو جنگوں کے باوجود بھی قائم رہا اور پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں کو آج بھی ایک ضابطہ کار فراہم کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG