ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے پاکستان کو قدرتی گیس برآمد کرنے کے لیے مجوزہ پائپ لائن تعمیر کرنے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیا ہے۔
اُنھوں نے جمعرات کی شب دیر گئے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے میں بلائی گئی ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس منصوبے کو 2014ء تک مکمل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ایرانی صدر کی پاکستان آمد کا مقصد جمعرات کو اسلام آباد کی میزبانی میں ہونے والے ڈی ایٹ ملکوں کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔
’’ ایران کی جانب پائپ لائن کی تعمیر تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے جبکہ پاکستان میں بھی یہ کام جلد مکمل ہو جائے گا۔‘‘
احمدی نژاد نے کہا کہ ایران اس مقصد کے لیے پاکستان کے ساتھ مالی تعاون بھی کر رہا ہے۔
2010ء میں طے پانے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت ایران 2014ء سے پاکستان کو قدرتی گیس کی برآمد شروع کرے گا اور 2015ء کے وسط تک اس کی سپلائی بڑھا کر یومیہ ایک ارب مکعب فٹ کر دی جائے گی۔
گیس کی فراہمی جنوبی ایران کے ذخائر سے کی جائے گی جس کے لیے پاکستان کی سرحد تک 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جانی ہے، جبکہ خلیج میں پارس کے علاقے سے برآمد کی جانے والی اس قدرتی گیس کو درآمد کرنے کے لیے پاکستان کے اندر بھی 800 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر درکار ہوگی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کو بجلی بھی سپلائی کر رہا ہے اور اس ضمن میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کے لیے دونوں ملکوں نے معاہدوں پر دستخط بھی کیے ہیں۔
اُنھوں نے منصوبے کے لیے مالی وسائل کی عدم دستیابی جیسے مسائل اور پاکستان کو اس میں شمولیت سے باز رکھنے کے لیے امریکی دباؤ کو بھی مسترد کیا۔ ’’امریکہ اس منصوبے پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔۔۔ انشااللہ یہ منصوبہ جلد مکمل ہوجائے گا اور پاکستان کو گیس ملے گی۔‘‘
امریکہ نے ایران پر اقتصادی و تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں اور پابندیوں کے خوف نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو بھی تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے اس مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے میں سرمایہ کاری سے دور رکھا ہے۔
امریکی حکام پاکستان کو بھی ایران کے ساتھ اس شراکت داری سے باز رہنے کا انتباہ کرچکے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُس پر بھی امریکہ کی اقتصادی پاپندیوں کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی قائدین کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایران سے قدرتی گیس کی درآمد کا منصوبہ قومی اہمیت کا حامل ہے۔
اُنھوں نے جمعرات کی شب دیر گئے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے میں بلائی گئی ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس منصوبے کو 2014ء تک مکمل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ایرانی صدر کی پاکستان آمد کا مقصد جمعرات کو اسلام آباد کی میزبانی میں ہونے والے ڈی ایٹ ملکوں کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔
’’ ایران کی جانب پائپ لائن کی تعمیر تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے جبکہ پاکستان میں بھی یہ کام جلد مکمل ہو جائے گا۔‘‘
احمدی نژاد نے کہا کہ ایران اس مقصد کے لیے پاکستان کے ساتھ مالی تعاون بھی کر رہا ہے۔
2010ء میں طے پانے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت ایران 2014ء سے پاکستان کو قدرتی گیس کی برآمد شروع کرے گا اور 2015ء کے وسط تک اس کی سپلائی بڑھا کر یومیہ ایک ارب مکعب فٹ کر دی جائے گی۔
گیس کی فراہمی جنوبی ایران کے ذخائر سے کی جائے گی جس کے لیے پاکستان کی سرحد تک 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جانی ہے، جبکہ خلیج میں پارس کے علاقے سے برآمد کی جانے والی اس قدرتی گیس کو درآمد کرنے کے لیے پاکستان کے اندر بھی 800 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر درکار ہوگی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کو بجلی بھی سپلائی کر رہا ہے اور اس ضمن میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کے لیے دونوں ملکوں نے معاہدوں پر دستخط بھی کیے ہیں۔
اُنھوں نے منصوبے کے لیے مالی وسائل کی عدم دستیابی جیسے مسائل اور پاکستان کو اس میں شمولیت سے باز رکھنے کے لیے امریکی دباؤ کو بھی مسترد کیا۔ ’’امریکہ اس منصوبے پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔۔۔ انشااللہ یہ منصوبہ جلد مکمل ہوجائے گا اور پاکستان کو گیس ملے گی۔‘‘
امریکہ نے ایران پر اقتصادی و تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں اور پابندیوں کے خوف نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو بھی تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت کے اس مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے میں سرمایہ کاری سے دور رکھا ہے۔
امریکی حکام پاکستان کو بھی ایران کے ساتھ اس شراکت داری سے باز رہنے کا انتباہ کرچکے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُس پر بھی امریکہ کی اقتصادی پاپندیوں کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی قائدین کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایران سے قدرتی گیس کی درآمد کا منصوبہ قومی اہمیت کا حامل ہے۔