پاکستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اگرچہ اس کے اثرات پورے ملک میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن خاص طور پر ملک کا شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ اس سے شدید متاثر ہوا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدت پسندوں کے حملوں میں 750 اسکولوں کو نقصان پہنچا۔
صوبائی وزیر تعلیم محمد عاطف خان نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ بہت بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ جہاں اسکول بننے چاہیں وہاں وہ دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
’’ساڑھے سات سو اسکولوں کو نقصان پہنچا، جن میں کچھ مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور کچھ کو جزوی نقصان پہنچا۔ اُن میں سے تقریباً ساڑھے چھ سو کی تعمیر نو ہو چکی ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندی سے متاثرہ 100 اسکول ایسے ہیں جن کو بحال کیا جا رہا ہے۔
عاطف خان نے کہا کہ صوبے میں ساڑھے اٹھائیس ہزار سرکاری اسکول ہیں اور اُن کے بقول ان تعلیمی اداروں کی حفاظت محض سکیورٹی بڑھانے سے ممکن نہیں ہو سکے گی بلکہ بہتر پالیسی سازی سے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
’’اگر پالیساں آپ کی ایسی ہوں، جس سے دہشت گردی مکمل طور پر ختم ہو جائے تو اسکول بھی اس سے بچ جائیں گے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اچھی تعلیم اور میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ اُن کی حکومت لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔
’’اس مہینے سے ایک ہزار ’’گرلز کمیونٹی‘‘ اسکول کام کرنا شروع کر دیں گے،ہم 160 نئے اسکول بنا رہے ہیں۔ ہم جو اسکول بنائیں گے اُن میں سے 70 فیصد لڑکیوں کے لیے اور 30 فیصد لڑکوں کے لیے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم صوبے میں یہ تناسب ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، لڑکیوں کے اسکول بہت کم ہیں۔‘‘
محمد عاطف نے بتایا کہ معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔