پاکستان کی قومی اسمبلی نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق صدارتی آرڈیننس میں چار ماہ کی توسیع کردی ہے۔
فروری میں جاری کیے گئے پاکستان آرمی (امینڈمنٹ) آرڈیننس کو ابھی تک قانون نہیں بنایا گیا اور رواں ہفتے آرڈیننس کی مدت ختم ہونے سے قبل قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے اس کی مدت میں مزید چار ماہ کا اضافہ کیا۔
گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا تھا، جس کے بعد اس سال کے اوائل میں آئین اور ’پاکستان آرمی ایکٹ 1952‘ میں ترمیم کی گئی تھی۔ مذکورہ آرڈیننس بھی ان ترامیم کا حصہ تھا۔
ان ترامیم کے تحت دہشت گردی کے شبہے میں گرفتار کیے گئے سویلین ملزمان کے خلاف بھی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا سکتا ہے۔
صدارتی آرڈیننس میں توسیع کے لیے بجٹ پر بحث کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے اعتراض کیا کہ بجٹ پر بحث کے دوران حکومت کوئی بل یا آرڈیننس متعارف نہیں کروا سکتی۔
نتیجتاً ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل اور وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے درمیان تندوتیز جملوں کے تبادلہ ہوا جس کے بعد متحدہ کے ارکان احتجاجاً ایوان سے باہر چلے گئے۔
منگل کو پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ آرڈیننس دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کا حصہ ہے اور اس میں توسیع ضروری تھی۔
واضح رہے کہ 21 ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، جس کی سماعت ایک 17 رکنی بنچ کر رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اب تک فوجی عدالتوں نے چھ عام شہریوں کو سزائیں سنائی ہیں، جن میں سے پانچ کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید دی گئی ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ان سزاؤں کی توثیق کر دی تھی، مگر اپریل میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک درخواست کے بعد عدالت عظمیٰ نے سزاؤں پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اخیتار کیا گیا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ان مجرموں کی سزا پر عملدرآمد سے انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہو گی۔
گزشتہ سال جون سے فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے اور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کی تھی جس میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی شامل تھا۔