کیا پاکستان میں واقعی کرکٹرز کو مذہب کی بنیاد پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
اسپیڈ اسٹار شعیب اختر کا یہ بیان کہ سابق لیگ اسپنر دانش کنیریا کو مذہب کی بنیاد پر تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے، اس وقت پاکستان اور بھارت کے ٹیلی ویژن پروگراموں میں موضوع بنا ہوا ہے۔
’’پاکستان میں سات غیر مسلم کرکٹر انٹرنیشنل کرکٹ کھیل چکے ہیں، آج تک ایسا سنا نہ دیکھا‘ یہ کہنا ہے سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن حسن خان کا جو پاکستان کی ٹیم کے کوچ، منیجر اور چیف سلیکٹر بھی رہ چکے ہیں۔
محسن حسن خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ جب ہم کھیل رہے تھے، انیل دلپت ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستانی ٹیم کے وکٹ کیپر تھے۔ کبھی محسوس تک نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ کوئی بھی کھلاڑی امتیازی سلوک روا رکھتا ہو۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ دانش کنیریا کی کرکٹ کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ کہہ سکتا ہوں کہ وہ میری ’فائنڈنگ‘ ہیں۔ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ دانش کو ان کی پرفارمنس پر ٹیم کے ساتھیوں نے سراہنے میں کوئی مختلف رویہ دکھایا ہو یا کم جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہو۔
حسن جلیل کم و بیش 30 برس پاکستان کے کمنٹری باکس میں موجود رہے ہیں۔ اردو انگریزی کے معروف کمنٹیٹر اور کھلاڑیوں کے ساتھ ذاتی راہ و رسم رکھتے ہیں اور ڈریسنگ روم کے ماحول سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کے خیال میں شعیب اختر کے بیان کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئیے۔
’’شعیب اختر کے منہ میں جو آئے بول دیتے ہیں۔ وہ لائم لائٹ میں رہنا چاہتے ہیں اور آپ نے دیکھ لیا، اس متنازعہ بیان کے بعد بھارت کے ٹیلی ویژن چینلز ان کے انٹرویو سے اس کلپ کو بار بار دکھا رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر جگہ ان پر بات ہو رہی ہے۔‘‘
حسن جلیل کہتے ہیں کہ دانش کنیریا سے پہلے بھی غیر مسلم کھلاڑی پاکستان کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ ایسا کوئی تاثر کسی طرف سے کبھی نہیں دیا گیا کہ ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق روا رکھی جاتی ہو۔
شعیب اختر نے آخر کہا کیا؟
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور اپنی تیز رفتار باؤلنگ کے سبب راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے جانے والے شعیب اختر کے ٹیلی ویژن پر اس بیان کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے کہ سابق لیگ سپنر دانش کنیریا کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر تعصب روا رکھا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ڈریسنگ روم میں کچھ کھلاڑیوں کو یہ کہتے سنا کہ کنیریا یہاں سے کھانا کیوں لے رہا ہے۔
شعیب اختر کے بقول میرا ردعمل تھا ’’میں تم لوگوں کو اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔‘‘
شعیب اور کنیریا کے ساتھ کھیلنے والے سینئر کھلاڑیوں کا ردعمل
شیعب اختر کا یہ بیان پاکستان اور بھارت میں ٹاک شوز کا موضوع بنا ہوا ہے۔
لیکن پاکستان کے اندر سابق کپتان انضمام الحق اور لیجنڈری بلے باز محمد یوسف سخت الفاظ میں شعیب اختر کے بیان کی نفی کر رہے ہیں۔ انضمام الحق نے جو ایک بڑے کرکٹر ہونے کے علاوہ مذہبی تشخص بھی رکھتے ہیں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ وہ تو دانش کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھا لیا کرتے تھے۔
محمد یوسف جو بذات خود ایک غیر مسلم کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا، اپنے ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ شعیب اختر کے بیان پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ کھلاڑیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بیان کی مذمت کرتا ہوں، خود پاکستان کی ٹیم کا حصہ رہا ہوں، مجھے ہمیشہ ٹیم، انتظامیہ اور مداحوں کی جانب سے بہت سا پیار ملا ہے۔
اس سارے ردعمل میں دانش کنیریا کا اپنا ٹوئٹ اور پورا ایک بیان اہم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ شعیب اختر نے جو بھی کہا ٹھیک ہے۔ لیکن میں بیک وقت ان تمام عظیم کھلاڑیوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے بطور کرکٹر خلوص دل سے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں ذاتی طور پر درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
اپنے بیان میں دانش کنیریا نے میڈیا، کرکٹر اور انتظامیہ کے عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے بقول دانش کے، ان کی مذہبی وابستگی کو کبھی درمیان میں نہ لاتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بیان میں آگے چل کر دانش کنیریا کہتے ہیں،
’’معاشرے میں کچھ عناصر ایسے تھے جنہوں نے میری مخالفت کی۔ لیکن ان کی مخالفت ان لوگوں کے سامنے نہ ٹھہر سکی جو مجھ سے محبت کرتے تھے۔ میں زندگی میں ہمیشہ مثبت سوچتا رہا ہوں اور منفی چیزوں کو نظر انداز کیا ہے‘‘
تاہم دانش کنیریا ایک طرح کے ’’ امتیازی سلوک ‘‘ کا گلہ کرتے ہوئے ضرور نظر آتے ہیں۔
’’میں نے اپنے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان اور دنیا بھر میں موجود بہت سے لوگوں سے رابطہ کیا۔ آج تک مجھے کوئی مدد نہیں ملی حالانکہ پاکستان کے اندر دیگر کئی کھلاڑیوں کے اسی طرح کے مسائل کو حل کیا گیا ہے۔‘‘
دانش کنیریا کو انگلش کاونٹی میں میچ فکسنگ کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس سے قبل محمد عامر، محمد آصف اور کپتان سلمان بٹ کو بھی انگلینڈ میں ہی سپاٹ فکسنگ کے الزام میں جیل کاٹنا پڑی۔ تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ نے محمد عامر اور سلمان بٹ کی بحالی کی کوششیں کیں حتیٰ کہ محمد عامر قومی ٹیم کا حصہ بنے جبکہ محمد آصف اور سلمان بٹ کی ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی ہوگئ لیکن دانش کنیریا کے لیے کرکٹ کے دروازے دوبارہ نہ کھل سکے۔
پاکستان کرکٹ کی انتظامیہ کے نمائندے کہتے رہے ہیں کہ وہ دانش کنیریا کی مدد اس لیے نہیں کر پا رہے کہ معاملہ انگلش کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی کے درمیان ہے۔ اگر دانش نے پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے کوئی خلاف ورزی کی ہوتی تو معاملہ مختلف ہوتا۔
پاکستان کے لیے کھیلنے والے غیر مسلم کھلاڑی
دانش کنیریا (2007-2000)
دانش کنیریا کا شمار پاکستان کے لیے کھیلنے والے ان غیرمسلم کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جن کا کیرئر طویل رہا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے 61 ٹیسٹ میچ اور اٹھارہ ایک روزہ میچوں میں نمائندگی گی۔ اپنے سات سالہ کیرئر کے دوران وہ ٹیم کا تقریباً مستقل حصہ رہے اور کئی میچز میں پاکستان کو تن تنہا فتح سے ہمکنار کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے 261 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی بہترین باولنگ 77 رنز کے عوض سات وکٹیں ہے۔ ایک روزہ میچوں میں ان کو صرف اٹھارہ میچ ملے جس میں انہوں نے پندرہ وکٹیں حاصل کیں۔ 31 رنز کے عوض تین وکٹیں ان کا بہترین ریکارڈ رہا۔
یوسف یوحنا (محمد یوسف 2010-1998)
دانش کنیریا کے علاوہ پاکستان کے لیے جس کھلاڑی نے طویل کرکٹ کھیلی اور گراں قدر خدمات انجام دیں، ان میں ایک نام یوسف یوحنا کا ہے۔ وہ غیرمسلم کھلاڑی کے طور پر 1998 میں پاکستان کی ٹیم میں شامل ہوئے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔ انہوں نے 90 ٹیسٹ اور 288 ایک روزہ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ٹیسٹ کرکٹ میں 24 سنچریوں اور 33 نصف سنچریوں کے ساتھ 7530 رنز جبکہ ایک روزہ میچوں میں پندرہ سنچریوں اور 64 نصف سنکریوں کے ساتھ 9720 رنز اسکور کر چکے ہیں۔ ستمبر 2010 میں انہوں نے کیرئر کا آخری ایک روزہ میچ کھیلا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ سال 2005 میں انہوں نے تبدیلی مذہب کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور اپنا نام یوسف یوحنا سے محمد یوسف رکھ لیا تھا۔
انیل دلپت (1985-1982)
اتفاق سے انیل دلپت جو پاکستان کے لیے وکٹ کیپر کے طور پر نو ٹیسٹ میچ اور پندرہ ایک روزہ میچز کھیل چکے ہیں، دانش کنیریا کے کزن بتائے جاتے ہیں۔ انیل دلپت بھی اپنے مختصر کیرئر پر خوش نہیں تھے اور اس وقت خبروں کا موضوع بنے جب انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کپتان عمران خان، جو آج پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان کے کیرئر کے جلد خاتمے کے ذمہ دار تھے۔‘‘ انیل دلپت پاکستان کے لیے کھیلنے والے پہلے ہندو کھلاڑی تھے۔
روسی ڈنشا (1950-1949)
پاکستان کے یہ پہلے پارسی کھلاڑی تھے۔ ان کا فرسٹ کلاس کیرئر 1948 سے 1952 تک کا ہے لیکن دو سال انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے دو غیرسرکاری ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی لیکن کوئی بڑا اسکور نہ کر سکے۔ 1928 میں پیدا ہونے والے یہ کرکٹر مارچ 2014 میں انتقال کر گئے تھے۔
والس میتھائس( 1962- 1955)
والس میتھائس کیتھولگ کرسچن تھے۔ کرسچین ہی نہیں پہلے غیر مسلم کھلاڑی جنہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے پاکستان کے لیے 21 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ ان کو سٹائلش مڈل آرڈر بلے باز مانا جاتا تھا۔ 21 میچوں کی 36 اننگز میں انہوں نے 783 رنز بنائے۔ ان کا بہترین انفرادی سکور 77 رہا۔ انہوں نے 146 فرسٹ کلاس میچوں میں 44.5 کی اوسط سے 7520 رنز بنائے جس میں 16 سنچریاں اور 41 نصف سنچریاں شامل تھیں
انٹاؤ ڈیسوزا (1962-1959)
انٹاؤ ڈیسوزا پاکستانی کینیڈین کرکٹر تھے۔ وہ پیدا بھارت کے شہر گووا میں ہوئے تھے۔ 1959 سے 1962 کے دوران پاکستان کے لیے چھ ٹیسٹ میچ کھیلے۔ وہ میڈیم پیس بولر تھے اور آل راؤنڈر خیال کیے جاتے تھے۔ پاکستان کے لیے کھیلنے والے دوسرے کرسچئن کھلاڑی تھے۔ انہوں نے چھ میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کیں۔ 61 فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے 107 کھلاڑیوں کو پیویلین بھجوایا۔ انہوں نے 1959 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلا میچ کھیلا تھا۔
ڈنکن شارپ ( 1960-1959)
ڈنکن شارپ پاکستانی آسٹریلین تھے۔ ان کا کیرئر تین ٹیسٹ میچوں پر ہی محیط ہے۔ پاکستان کے لیے کھیلنے والے وہ چوتھے کرسچن کرکٹر تھے۔ خاندانی پس منظر کے اعتبار سے اینگلو انڈین تھے۔ انہوں نے 13 نومبر 1959 کو آسٹریلیا کے خلاف ہی ڈیبیو کیا تھا۔ وہ 37 فرسٹ کلاس میچ کھیل سکے جس میں انہوں نے دو سنچریوں اور سات نصف سنچریوں کی مدد سے 1531 رنز بنائے۔