پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات سے متعلق ترمیمی بل اور دوسرے بلوں کی اکثریت رائے سے منظوری کو سیاسی تجزیہ کار حکومت کے لئےنیک فال قرار دے رہے ہیں۔
ان ماہرین کے مطابق ایسا اس لیے ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بڑے تواتر سے یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ اسٹبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحے پر نہیں ہیں اور شائد یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہ کرپائے۔
ساتھ ہی، بعض آئینی اور قانونی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ان نئے قوانین کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
قاضی مبین پاکستان کے ایک ممتاز آئینی اور قانونی ماہر ہیں۔ اپوزیشن کے اس موقف کے بارے میں کہ وہ ان قوانین کے سلسلے میں عدالت سے رجوع کرے گی انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 72 کی شق نمبر چار بہت واضح ہے کہ جب بھی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہو گا اس میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ ان ارکان کی اکثریت کی رائے سے ہو گا جو ایوان میں موجود ہیں اور جنہوں نے ووٹ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس کی کارروائیوں کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ایوان کی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر اس شق کی وضاحت کے لئے کوئی عدالت میں جانا چاہے تو جا سکتا ہے۔ لیکن، بقول ان کے، آئین اس سلسلے میں واضح ہے کہ اس سےکچھ حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بل کے قانون بننے کے بعد آپ اس بنیاد پرعدالت میں چیلنج نہیں کرسکتے کہ وہ قانون کیسے بنا۔ تاہم، کسی قانون کو عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ اس کی کوئی شق آئین پاکستان سے متصادم ہو رہی ہو۔ اور اگر کسی منظور شدہ قانون کی کوئی شق آئین سے متصادم ہو تو عدالت اس پر فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر الیکشن قوانین سے متعلق کوئی ترمیم ہوئی ہے اور آئین کے اندر الیکشن کمیشن کو جو اختیارات دئے گئے ہیں اس ترمیم کے تحت وہ اختیارات متاثر ہوں تو اس شق کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اور عدالت اس شق کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔
سلمان عابد ایک ممتاز سیاسی تجزیہ کار ہیں انہوں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشترکہ اجلاس چند روز پہلے بلایا گیا تھا پھر اسے ملتوی کرکے آج یہ اجلاس ہوا جس میں حکومت نے اپنا ہدف حاصل کر لیا۔
لیکن پہلے اجلاس طلب کرنا پھر اسے ملتوی کرکے دوبارہ بلانا جس میں حکومت اپنی عددی برتری ثابت کرنے میں کامیاب رہی اور اس کے اتحادی اس کے شانہ بشانہ کھڑے رہے جو پہلے اس سے ناراض نظر آتے تھے، اسی ناراضگی سے بعض تجزیہ کاروں نے یہ اخذ کیا کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان کہیں نہ کہیں کوئی اختلاف تھا جسے اس دوران طئے کیا گیا۔ اور اپوزیشن کے لوگ اسی حوالے سے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا ایجنڈا حکومت گرانا نہیں ہے بلکہ وہ اگلے انتخابات کے تناظر میں ایک نئی صف بندی کی کوشش میں ہے، تاکہ آنے والے انتخابات میں وہ اقتدار کی سیاست میں زیادہ بہتر انداز میں حصہ لے سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کرانے میں کامیاب رہتی ہے یا نہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن سمیت دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لئے بہت کام کرنا ہو گا اور اس کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہوں گے۔