نامعلوم سرکاری پاکستانی ذرائع کے مطابق، پاکستان نے افغان حکام کی درخواست پر طالبان عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ افغان حکومت کے امن مذاکرات میں مدد کے لیے کچھ طالبان قیدی رہا کردیے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کو رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں کی تعداد کم ازکم سات ہے ، لیکن ان میں کوئی بڑی سطح کا جنگجو نہیں ہے۔
امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے عہدے داراس پر متفق ہیں کہ افغان جنگ کے خاتمے کا واحد اور دیرپا حل طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت ہے۔ لیکن اب تک طالبان مسٹر کرزئی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
عہدے داروں نے اسلام آباد کے اس اقدام کو تعمیری اور حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چار سال سے جاری امن کوششوں کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی جانب سے یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
افغانستان میں عسکریت پسندوں سے برسرپیکار امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ، طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے خواہش مند ہیں تاکہ 2014 کے آخر میں غیر ملکی لڑاکا فورسز کے چلے جانے کے بعدخطے میں غیر یقینی کی صورت حال سے بچا جاسکے۔لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیاطالبان امن مذاکرات میں حصہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا وہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کا انتظار کریں گے۔
افغان امن مذاکرات میں پاکستان کی ایک کلیدی حیثیت ہے کیونکہ پاکستان کے1990 کے عشرے سے طالبان تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد بہت سے طالبان راہنما پاکستانی علاقوں میں روپوش ہوگئے تھے۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان نے افغان حکومت کی کونسل فار پیس کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی ذاتی درخواست پر بدھ کے روز کم ازکم سات عسکریت پسند چھوڑ دیے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے رہا کیے گئے طالبان قیدیوں میں سے تین کی شناخت ملانورایدین ترابی جو طالبان حکومت میں وزیر انصاف تھے، ملاعمر کے سابق سیکرٹری ملاجہانگیر وال اور سابق وزیر اللہ داد طیب کے طور پر کی ہے۔
طالبان نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی بھرپور حمایت کے ساتھ پانچ برس تک افغانستان پر حکومت کی، جس کا خاتمہ 2001 کے آخر میں امریکی قیادت کے حملے کے سے ہوا۔
اخبار کے مطابق پاکستانی حکومت کے ایک عہدے دار اور ایک انٹیلی جنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر طالبان قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی۔
وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کو رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں کی تعداد کم ازکم سات ہے ، لیکن ان میں کوئی بڑی سطح کا جنگجو نہیں ہے۔
امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے عہدے داراس پر متفق ہیں کہ افغان جنگ کے خاتمے کا واحد اور دیرپا حل طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت ہے۔ لیکن اب تک طالبان مسٹر کرزئی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
عہدے داروں نے اسلام آباد کے اس اقدام کو تعمیری اور حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چار سال سے جاری امن کوششوں کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی جانب سے یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
افغانستان میں عسکریت پسندوں سے برسرپیکار امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ، طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے خواہش مند ہیں تاکہ 2014 کے آخر میں غیر ملکی لڑاکا فورسز کے چلے جانے کے بعدخطے میں غیر یقینی کی صورت حال سے بچا جاسکے۔لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیاطالبان امن مذاکرات میں حصہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا وہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کا انتظار کریں گے۔
افغان امن مذاکرات میں پاکستان کی ایک کلیدی حیثیت ہے کیونکہ پاکستان کے1990 کے عشرے سے طالبان تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد بہت سے طالبان راہنما پاکستانی علاقوں میں روپوش ہوگئے تھے۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان نے افغان حکومت کی کونسل فار پیس کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی ذاتی درخواست پر بدھ کے روز کم ازکم سات عسکریت پسند چھوڑ دیے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے رہا کیے گئے طالبان قیدیوں میں سے تین کی شناخت ملانورایدین ترابی جو طالبان حکومت میں وزیر انصاف تھے، ملاعمر کے سابق سیکرٹری ملاجہانگیر وال اور سابق وزیر اللہ داد طیب کے طور پر کی ہے۔
طالبان نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی بھرپور حمایت کے ساتھ پانچ برس تک افغانستان پر حکومت کی، جس کا خاتمہ 2001 کے آخر میں امریکی قیادت کے حملے کے سے ہوا۔
اخبار کے مطابق پاکستانی حکومت کے ایک عہدے دار اور ایک انٹیلی جنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر طالبان قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی۔