پاکستان میں موجود پاک ترک اسکول اور کالجوں میں کام کرنے والے ترک عملے کو تین دن میں پاکستان چھوڑنے کے فیصلے پر اسکول انتظامیہ کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے تعلیمی ادارے کے ترک عملے کو ملک چھوڑنے کے بارے میں یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا جب بدھ کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے۔
پاک ترک اسکول کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین عالمگیر خان نے ایک بیان میں کہا کہ اسکول انتظامیہ کو حکومت کے اس اچانک فیصلے پر گہری تشویش ہے۔
بیان کے مطابق ترک اساتذہ، انتظامیہ کے عہدیدار اور اُن کے اہل خانہ کی تعداد لگ بھگ 450 افراد پر مشتمل ہے، جس میں اسکول جانے کی عمر کے بچوں کے علاوہ نوزائید بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
ان تمام افراد کو 20 نومبر تک پاکستان چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔
بیان میں اسکول انتظامیہ کی طرف سے طالب علموں اور اُن کے والدین کو یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ پاکستان بھر میں پاک ترک اسکول و کالجوں کی تمام شاخوں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بدھ کو اسکول انتظامیہ کی طرف سے حکومت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ ترک عملے کو جاری تعلیمی سال کے اختتام یعنی مارچ 2017 تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے منگل کی شام اسلام آباد میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اسکول معمول کے مطابق چلتے رہیں گے۔
’’اسکولوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ متبادل انتظام کر دیا گیا ہے اور بورڈ میں بھی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ ترک حکومت جس چیز کا انتظام کر رہی تھی وہ اگر اس سے خوش نہیں ہیں تو متبادل لوگ بھیج دیں گے۔ لیکن بچوں کی تعلیم میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔‘‘
پاک ترک اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں اور صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اسکول انتظامیہ کے مطابق حکومت پاکستان کے متعلقہ اداروں کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک تحریری بیان میں کہا گیا تھا کہ انتظامیہ پاک ترک اسکول و کالج مخالف کوئی بھی اقدام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
اس سے قبل اگست میں پاک ترک اسکولوں کے 28 پرنسپلز کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا اور اسکول انتظامیہ کے مطابق ان میں 23 ترک شہری بھی شامل تھے۔
ترکی کی حکومت کا موقف ہے کہ ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے زیر اثر دنیا بھر میں تعلیمی ادارے قائم ہیں اور پاکستان میں قائم پاک ترک اسکول بھی اُسی کا حصہ ہیں۔
ترکی کی حکومت کا یہ بھی الزام رہا ہے جولائی میں رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی کوشش میں فتح اللہ گولن بھی شامل تھے۔
تاہم ترک مبلغ فتح اللہ گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُن کا ایسی کسی کوشش سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
پاک ترک اسکول کی انتظامیہ کی طرف سے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ پاک ترک اسکول و کالجوں کا تعلق فتح اللہ گولن سے جوڑنا باعث تشویش ہے اور ان تعلیمی اداروں کا کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاک ترک نامی اسکولوں اور کالجوں میں لگ بھگ 11 ہزار پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں۔