پاکستان نے ترکی کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ امریکہ میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے پاکستان میں قائم تعلیمی اداروں کی مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کی جائیں گی۔
جب کہ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اُنھیں اس سلسلے میں پاکستان سے مکمل تعاون مل رہا ہے اور اُنھوں نے اس پر اطمینان کا اظہار بھی کیا۔
پاک ترک نامی اسکولوں اور کالجوں کی بندش کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ ان اداروں میں لگ بھگ 10 ہزار پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں۔
ترکی میں 15 جولائی کو بغاوت کی کوشش کو وہاں کے عوام نے ناکام بنا دیا تھا، ترک حکومت کا الزام ہے کہ اس میں فتح اللہ گولن ملوث ہیں تاہم فتح اللہ گولن خود پر لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُن کا بغاوت کی کوشش سے کوئی تعلق نہیں۔
ملک میں بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاؤش اوغلو پیر کی شب پہلی مرتبہ اسلام آباد پہنچے۔ منگل کی صبح پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے وفود کی سطح پر ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
ترک وزیر خارجہ میولوت اوغلو نے کہا کہ ماضی میں حکومت فتح اللہ گولن کی تنظیم ’حزمت‘ کے تحت چلنے والے ایسے تعلیمی اداروں کی مدد کرتی رہی کیوں کہ حکومت اس بات سے آگاہ نہیں تھی کہ ان کا کوئی پوشیدہ ایجنڈا بھی ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی راز نہیں کہ ’حزمت‘ تنظیم کے پاکستان و دیگر ممالک میں تعلیمی ادارے ہیں۔ ’’میں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں پاکستان سے مکمل تعاون مل رہا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور ہمیں ایسی تنظیموں کے بارے میں بہت محتاط ہونا ہو گا۔‘‘
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم ایسے تمام ممالک کے استحکام کے لیے خطرہ ہے جہاں یہ موجود ہے۔
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ متبادل انتظامات کے تحت پاک ترک اسکول اور وہاں زیر تعلیم طالب علموں کا تحفظ کیا جائے گا۔
اُنھوں نے متبادل انتظام یا طریقہ کار کے بارے میں وضاحت تو نہیں کی البتہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ جب یہ طے ہو جائے گا تو اس بارے میں آگاہ بھی کر دیا جائے گا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ کچھ اسکول اگر پیشہ وارانہ طریقے سے چلائے جا رہے ہیں اور وہ اچھی تعلیم بھی فراہم کر رہے ہیں تو اُن کو چلانے کے لیے متبادل انتظام تلاش کیا جائے گا۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک ان کی دیگر سرگرمیوں کو روکنے کی بات ہے تو اُن کو اُسی طرح روکا جائے گا جیسا کہ ’’ہمارے ترک بھائی ہم سے چاہیں گے‘‘
ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد پاکستان میں ترک سفیر صادق بابر گرگن نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کا ملک چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں قائم فتح اللہ گولن کے تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرے۔
تعلیمی اداروں کے علاوہ گولن کی تنظیم کے تحت رومی فورم کے ادارے بھی قائم ہیں جن کے ذریعے پاکستان اور ترکی میں ثقافتی و علمی موضاعات پر مکالموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ترجمان نفیس ذکریا کہہ چکے ہیں ترکی سے تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے، پاکستان ترکی کو ہر طرح کا ضروری تعاون فراہم کرے گا۔
نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ ان تعلیمی اداروں کو چلانے کا ایک ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترکی ایسا کوئی ادارہ تجویز کر دے جو ترک اسکولوں کے منتظم کے طور پر کام کرے۔
پاکستان میں پاک ترک اسکول دو دہائیوں سے زائد عرصے سے قائم ہیں اور اس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک کا حصہ نہیں ہیں۔
پاک ترک اسکول کی انتظامیہ کی طرف سے اپنی ویب سائیٹ پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’ہمیں ان الزامات پر گہری تشویش ہے کہ پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز کو فتح اللہ گولن سے جوڑا جا رہا ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان تعلیمی اداروں کا کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترکی اور پاکستان روایتی طور قریبی اتحادی رہے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان قریبی روابط کے سبب دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی طرف سے ترکی میں بغاوت کی کوشش کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے رجب طیب اردوان کی منتخب حکومت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔
ترک وزیر خارجہ نے پاکستانی مشیر خارجہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ فتح اللہ گولن کے تعلیمی اداروں کا ایسا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طالب علم اور اُن کے والدین اس سے شدید متاثر نا ہوں اور اُن کے بقول ایسے ہی حل کو تلاش کیا جا رہا ہے۔