رسائی کے لنکس

امریکی سفارت کار کی مسلسل حراست عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے: امریکہ


زیر حراست امریکی کو جمعرات کو لاہور کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اُس کے جسمانی ریمانڈ میں آٹھ روز کی توسیع کا حکم دیا گیا۔
زیر حراست امریکی کو جمعرات کو لاہور کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اُس کے جسمانی ریمانڈ میں آٹھ روز کی توسیع کا حکم دیا گیا۔

سفارت خانے کے تازہ بیان میں بھی زیر حراست امریکی کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔ تاہم پاکستانی حکام کے مطابق اُس کا نام ریمنڈ ڈیوس ہے اور گرفتاری کے بعد اُس نے عدالت کو بتایا ہے کہ جو دو پاکستانی شہری اُس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے وہ مسلح تھے اور موٹر سائیکل پر اُس کی گاڑی کا پیچھا کر کے اُسے نقصان پہنچانا چاہتے جس پر اپنے دفاع میں اُسے گولی چلانا پڑی

امریکہ نے دوہرے قتل کے الزام میں پاکستان میں گرفتار اپنے سفارت کار کی فی الفوررہائی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کی مسلسل حراست بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

جمعرات کی شب اسلام آباد میں جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکی سفارت خانے نے کہا ہے کہ ”امریکہ کو مطلع کیے بغیر گرفتار سفارت کار کے وکیل کی غیر حاضری اور مترجم کی سہولت کی عدم موجودگی میں عدالت نے اُس کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کرکے امریکی شہری کو مروجہ طریقہٴ کار اور منصفانہ سماعت سے محروم رکھا۔“

سفارت خانے کے تازہ بیان میں بھی زیر حراست امریکی کا نام نہیں بتایا گیا۔

تاہم پاکستانی حکام کے مطابق اُس کا نام ریمنڈ ڈیوس ہے اور گرفتاری کے بعد اُس نے عدالت کو بتایا ہے کہ جو دو پاکستانی شہری اُس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے وہ مسلح تھے اور موٹر سائیکل پر اُس کی گاڑی کا پیچھا کر کے اُسے نقصان پہنچانا چاہتے جس پر اپنے دفاع میں اُسے گولی چلانا پڑی۔

امریکی بیان کے مطابق امریکہ نے 20 جنوری 2010ء کوحکومت پاکستان کوآگا ہ کیا تھا کہ گرفتار امریکی شہری کو اسلام آباد میں سفارت خانے کے انتظامی اور تکنیکی عملے کے رکن کے طور پر تعینات کیا گیا ہے ۔”ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات اور پاکستان کے اپنے قوانین کے تحت امریکی سفارت کار فوجداری مقدمات میں مکمل سفارتی استثنیٰ کا حقدار ہے اور اسے قانوناََ گرفتار کیا جاسکتا ہے نہ زیر حراست رکھا جاسکتا ہے“۔

سفارت خانے کے بیان میں ایک بار پھر 27 جنوری کو لاہور کے قرطبہ چوک میں پیش آنے والے واقعہ میں جانی نقصان پر گہرے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ انتباہ بھی کیا گیا ہے کہ ” حکومت پاکستان اور پنجاب کے صوبائی حکام غیر قانونی طور پر گرفتار ہونے والے سفارت کار کے تحفظ اور اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔“

لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اس پورے معاملے پر غیر واضع بیانات نے اپوزیشن جماعتوں اور مقامی میڈیا کو حکومت پر تنقید کرنے اور قیاس آرائیوں کے لیے خاصا مواد فراہم کیا ہے۔

پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ وہ مقامی قوانین کے تحت واقعہ کی تحقیقات کررہی ہے لیکن زیر حراست امریکی کی حثیت سفارت کار کی ہے یا نہیں اس کی تصدیق صرف وفاقی حکومت کرسکتی ہے۔

لاہور میں پیش آنے والے واقعے کو ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بدھ کو وزیر داخلہ رحمان ملک نے پہلی مرتبہ سینیٹ کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ زیر حراست ریمنڈ ڈیوس سفارتی پاسپورٹ پر پاکستان آیا تھا۔

لیکن جمعرات کو وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران اس وقت ایک بہت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب صحافیوں نے رحمان ملک کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے باربار زیر حراست امریکی سے متعلق معاملات پر سوالات پوچھے اور ترجمان ہر مرتبہ یہ کہتے رہے کہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے اس لیے فی الحال وہ اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران دو مواقع پر صحافیوں نے عبدالباسط کی طرف سے سوالات کا جواب نہ ملنے پر احتجاجاََ واک آوٹ کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔

XS
SM
MD
LG