پاکستان میں زیر حراست ایک امریکی عہدے دار کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دو پاکستانیوں میں سے ایک کی بیوہ نے اتوار کو چوہے مار دوا کھا کر خود کشی کر لی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ رشتہ داروں نے شمائلہ کنول کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جہاں اُس کی جان بچانے کی کوشش کی گئی۔
موت سے پہلے اسپتال میں رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اس خاتون نے زہر کھانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اُسے یقین ہے کہ اُس کے شوہر کے مبینہ قاتل کو بغیر عدالتی کارروائی کے رہا کردیا جائے گا جبکہ وہ”خون کا بدلہ خون “ چاہتی ہیں۔
پاکستانی حکام نے امریکی افسر کا نام ریمنڈ ڈیوس بتایا ہے جو اس وقت جسمانی ریمنڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔ تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ زیر حراست امریکی عہدے دار ایک سفارت کار ہے جو مکمل سفارتی استثنیٰ کا حقدار ہے اور حکومت پاکستان سے اُس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کو صدر آصف زرداری سے ایک ملاقات میں پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے ڈیوس کی رہائی پر زور دیا۔
امریکی حکام کے بقول اُن کے سفارت کار کی مسلسل غیر قانونی حراست سفارتی تعلقات کے ویاناکنونشن اور خود پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ایسوشیٹڈ پریس کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی آفیشیلز کہہ رہےہیں کہ پاکستانی عدالت کو امریکی حکام کی جانب سے فراہم کیے گئے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد کچھ ہی دنوں میں ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا جائیگا۔ یہ کاغذات ڈیوس کے اسٹیٹس کے متعلق ہیں۔
زیر حراست ریمنڈ ڈیوس نے ایک مقامی عدالت کو بتایا ہے کہ 27 جنوری کو موٹر سائیکل پر سواردو مسلح افراد لاہور کے قرطبہ چوک میں اُس کی گاڑی کا پیچھا کرے کے اُسے جسمانی نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور اُس نے اپنے دفاع میں اُن پر گولیاں چلائیں۔
اس کیس سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں حکومت پر الزام ہے کہ اس نے امریکہ کو ملک کے شمال مغربی علاقوں میں میزائل حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔
پاکستانی رہنماؤں نے امریکی مطالبات کے جواب میں کہا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور امریکی شہری کی قسمت کافیصلہ بھی عدالت ہی کرے گی۔