امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مستقبل میں اشتراک عمل کی شرائط سے متعلق سفارشات پر پاکستانی پارلیمان میں باقاعدہ بحث کا آغاز پیر کو ہو رہا ہے۔
پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے وزارتِ خارجہ اور عسکری قیادت کی مشاورت سے تیار کی گئی سفارشات گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کی تھیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں سلالہ کی چوکیوں پر نومبر 2011ء میں نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد نے امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کو معطل کر کے دوطرفہ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
چالیس شقوں پر مشتمل اس مسودے میں حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ سلالہ حملے پر واشنگٹن سے غیر مشروط معافی طلب کرے، جب کہ اس کارروائی کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
لیکن افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے لیے رسد کی پاکستان کے راستے ترسیل کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز کے باعث پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو مخالفین کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت پارلیمان میں اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر نیٹو سپلائی بحال کرنا چاہتی ہے، لیکن ایسا کوئی فیصلہ پارلیمان کا فیصلہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔
وزیرِ اعظم گیلانی سمیت حکمران پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنما ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔
امریکہ دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی سے متعلق پاکستان میں جاری پارلیمانی عمل کی جلد از جلد تکمیل کا منتظر ہے کیوں کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان محدود پیمانے پر رابطے برقرار ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے اتوار کی شب تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی مارک گروسمن سے ہونے والی ملاقات میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ اُن کا ملک ’’باہمی احترام اور مشترکہ مفادات‘‘ کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کے منتخب نمائندے ملک کے اہم ترین دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لے رہے ہیں اور پارلیمانی عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’’پاکستان پارلیمانی عمل کی روشنی میں امریکہ کے ساتھ ہر سطح پر تعلقات کی بحالی کا خواہاں ہیں۔‘‘
صدر زرداری ان دنوں تاجکستان کی میزبانی میں ہونے والے چار ملکی علاقائی سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
مارک گروسمن نے کہا کہ امریکہ اس پارلیمانی عمل کا احترام کرتا ہے۔ ’’ہمارا یقین ہے کہ ایسے کئی مشترکہ مفادات اور اہداف ہیں جن پر ہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘‘