حزب اختلاف کی جماعتوں کا ایک اہم اجلاس ہفتہ کو اسلام آباد میں ہوا جس میں تمام اپوزیشن پارٹیوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے از سر نو سے جائزے سے متعلق پارلیمان میں پیش کی گئی سفارشات پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے اجلاس میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے علاوہ، مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام اور سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں نے کہا کہ وہ پیر سے پارلیمان کے اجلاس میں امریکہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے بارے میں قومی سلامتی کی قائمہ کمیٹی کی پیش کی گئی سفارشات پر اپنا نکتہ نظر کھل کر پیش کریں گے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماء چوہدری نثار علی خان نے اجلاس میں طے پانے والے فیصلوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔
’’ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ کون راضی ہوتا ہے اور کون ناراض ہوتا ہے۔ ہم نے ملک کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے ہیں‘‘۔
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی متفقہ طور پر سفارشات کی منظوری دی جائے۔
’’حزب اختلاف کی جماعتیں جو تجاویز دیں گی، اگر ان کو شامل کیا جائے گا تو اسی صورت میں پارلیمان کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر اس کو محض ایک حکومتی فیصلہ تصور کیا جائے گا پارلیمنٹ کا نہیں۔‘‘
امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اشتراک عمل کی نئی شرائط رواں ہفتے پاکستانی پارلیمان میں پیش کی گئی تھیں جن میں نومبر 2011ء میں سلالہ چیک پوسٹ پر (نیٹو افواج) کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکہ سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فضائی حملے پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان نے فوری طور پر اپنی سرزمین کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی روک دی تھی جبکہ بلوچستان میں امریکہ کے زیر استعمال شمسی ائیر بیس کو بھی خالی کرا لیا گیا۔ اس کے علاوہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا بھی پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے خارجہ پالیسی سے متعلق سفارشات پارلیمان کی زیرنگرانی مرتب کرنا پیپلز پارٹی اوراس کے اتحادیوں کی ایک انتہائی سنجیدہ کوشش ہے۔