پاکستان نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جاری مذاکرات میں ’’مثبت پیش رفت‘‘ ہو رہی ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے یہ بیان میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت کے تازہ ترین کے دور کے بعد دیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق اُنھوں نے بتایا کہ پیر کو اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر جب کہ امریکی وفد کی سربراہی نائب وزیرِ خارجہ ٹام نائیڈز نے کی۔
ترجمان کے بقول مذاکرات کے بعد امریکی وفد کابل روانہ ہو گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے اپنی خبروں میں کہا ہے کہ بات چیت میں وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ (سی ایس ایف) کا معاملہ بھی یہ کہہ کر اُٹھایا کے اس مد میں رقم کی وصولی کے بغیر حکومتِ پاکستان کے لیے بجٹ خسارے کو کم کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سی ایس ایف کی 40 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط امریکی وفد نے آئندہ ایک ہفتے کے اندر ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جب کہ باقی کے 40 کروڑ اس کے بعد جاری کیے جائیں گے۔
امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے پر پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 2011ء میں 80 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسی سال مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کے بعد اس رقم کی ادائیگیوں کا سلسلہ روک دیا گیا۔
مجموعی طور پر امریکہ اڑھائی ارب ڈالر پاکستان کو ادا کرنے کا پابند تھا اور اطلاعات کے مطابق نائب امریکی وزیر خارجہ ٹام نائیڈز نے اس سال کے اختتام تک یہ ساری رقم پاکستان کو منتقل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے سول و عسکری عہدے داروں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گیا ہے، اور امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف سے اتوار کی شب ٹیلی فون پر رابطہ کرکے بحیثیت مجموعی دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
بظاہر بات چیت کے اس عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش میں افغانستان میں اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن بھی اچانک اتوار کی شام پاکستان پہنچ گئے تھے جو ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں اُن کا دوسرا دورہ ہے۔
امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے یہ کہہ کر حالیہ رابطوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے کہ فی الوقت اس بارے میں اُن کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔
مگر مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بات چیت کا مرکزی نقطہ افغانستان میں تعینات امریکی و اتحادی افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل پر گزشتہ نومبر سے عائد پابندی کا خاتمہ ہے اور دونوں ممالک نے اس سلسلے میں معاہدے کے مسودے کو حتمیٰ شکل دے دی ہے۔
تاہم سرکاری میڈیا پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی سے متعلق تاحال کوئی حتمیٰ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اور یہ معاملہ ابھی زیر بحث ہے۔
پاکستان نے مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر احتجاجاً رسد سے لدھے قافلوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی تھی، جو سات ماہ گزرنے کے بعد بھی برقرار ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے یہ بیان میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت کے تازہ ترین کے دور کے بعد دیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق اُنھوں نے بتایا کہ پیر کو اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر جب کہ امریکی وفد کی سربراہی نائب وزیرِ خارجہ ٹام نائیڈز نے کی۔
ترجمان کے بقول مذاکرات کے بعد امریکی وفد کابل روانہ ہو گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے اپنی خبروں میں کہا ہے کہ بات چیت میں وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ (سی ایس ایف) کا معاملہ بھی یہ کہہ کر اُٹھایا کے اس مد میں رقم کی وصولی کے بغیر حکومتِ پاکستان کے لیے بجٹ خسارے کو کم کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سی ایس ایف کی 40 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط امریکی وفد نے آئندہ ایک ہفتے کے اندر ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جب کہ باقی کے 40 کروڑ اس کے بعد جاری کیے جائیں گے۔
امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرنے پر پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 2011ء میں 80 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسی سال مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کے بعد اس رقم کی ادائیگیوں کا سلسلہ روک دیا گیا۔
مجموعی طور پر امریکہ اڑھائی ارب ڈالر پاکستان کو ادا کرنے کا پابند تھا اور اطلاعات کے مطابق نائب امریکی وزیر خارجہ ٹام نائیڈز نے اس سال کے اختتام تک یہ ساری رقم پاکستان کو منتقل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے سول و عسکری عہدے داروں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گیا ہے، اور امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف سے اتوار کی شب ٹیلی فون پر رابطہ کرکے بحیثیت مجموعی دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
بظاہر بات چیت کے اس عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش میں افغانستان میں اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن بھی اچانک اتوار کی شام پاکستان پہنچ گئے تھے جو ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں اُن کا دوسرا دورہ ہے۔
امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے یہ کہہ کر حالیہ رابطوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے کہ فی الوقت اس بارے میں اُن کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔
مگر مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بات چیت کا مرکزی نقطہ افغانستان میں تعینات امریکی و اتحادی افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل پر گزشتہ نومبر سے عائد پابندی کا خاتمہ ہے اور دونوں ممالک نے اس سلسلے میں معاہدے کے مسودے کو حتمیٰ شکل دے دی ہے۔
تاہم سرکاری میڈیا پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی سے متعلق تاحال کوئی حتمیٰ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اور یہ معاملہ ابھی زیر بحث ہے۔
پاکستان نے مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر احتجاجاً رسد سے لدھے قافلوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی تھی، جو سات ماہ گزرنے کے بعد بھی برقرار ہے۔