ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اتوار کو پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ تو بھارت کے نام رہا لیکن سنسنی خیز مقابلے کے آخری لمحات میں پیش آنے والے واقعات نے میچ ختم ہونے کے بعد بھی شائقینِ کرکٹ کو الجھائے رکھا۔
میچ کے بارہویں اوور میں بھارتی بلے بازوں ہاردک پانڈیا اور وراٹ کوہلی کے 20 رنز کے بعد لیفٹ آرم اسپنر محمد نواز کو کپتان بابر اعظم نے بالنگ اٹیک سے ہٹا دیا تھا۔
تاہم تمام فاسٹ بالرز اور شاداب خان کے اوورز ختم ہوجانے کی وجہ سے بابر اعظم کو محمد نواز سے آخری اوور کرانا پڑا جو گرین شرٹس کو مہنگا پڑا۔
آخری اوور کی پہلی گیند پر بھارت کو جب جیت کے لیے 16 رنز درکار تھے تو محمد نواز نے ہاردک پانڈیا کو 40 رنز کے انفرادی اسکور پر آؤٹ کرکے میچ میں دلچسپی پیدا کردی۔ ایسے میں نئے بلے باز دنیش کارتھک کریز پر آئے اور انہوں نے ایک رن بناکر وراٹ کوہلی کو واپس اسٹرائیک دی جو اس وقت 74 رنز پر بیٹنگ کررہے تھے۔
کوہلی نے اوور کی تیسری گیند پر دو رنز لیے جب کہ اگلی گیند محمد نواز نے اونچی پھینکی جسے وراٹ کوہلی نے کریز سے آگے نکل کر لیگ سائیڈ پر باؤنڈی کے پار پھینک دیا۔
اس موقع پر جب لیگ امپائر نے نو بال کا اشارہ نہیں دیا تو وراٹ کوہلی نے غصے میں ان سے دریافت کیا کہ 'کیا یہ نو بال نہیں تھی 'جس کے بعد اسکوائر لیگ پر کھڑے جنوبی افریقی امپائر مرائس ایراسمس نے نو بال کا اشارہ دیا۔
اس اشارے کے ساتھ ہی بھارت کو چھ کے بجائے سات رنز مل گئے اور محمد نواز کو گیند بھی دوبارہ پھینکنا پڑی۔ اس موقع پر کپتان بابر اعظم اور ساتھی کھلاڑیوں کا احتجاج رنگ نہ لایا اور پاکستان کو امپائر کے فیصلے پر اکتفا کرنا پڑا۔
اگلی گیند محمد نواز نے وائڈ پھینکی جس کے بعد بھارت کو ہدف تک پہنچنے کے لیے صرف پانچ رنز رہ گئے جب کہ اس کے پاس تین گیندیں باقی تھیں۔
وائڈ گیند پھینکنے کی وجہ سے محمد نواز کو فری ہٹ والی گیند دوبارہ کرنا پڑی جو جا کر تو وکٹ پر لگی لیکن پھر تھرڈ مین کی جانب چلی گئی۔ پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان نے ایسے میں امپائرز سے دریافت کیا کہ بولڈ ہونے کی وجہ سے گیند ڈیڈ کیوں نہیں قرار دی گئی؟ لیکن اسی اثنا میں بھارتی بلے باز تین رنز بناچکے تھے جنہیں امپائرز نے بائی قرار دے کر اسکور میں شامل کرلیا۔
جب اوور کی پانچویں گیند پر دنیش کارتھک کو محمد رضوان نے اسٹمپ آؤٹ کیا تو بھارت کو ایک گیند پر دو رنز درکار تھے۔ اس مارجن کو محمد نواز نے ایک اور وائڈ پھینک کر مزید کم کردیا اور روی چندن ایشون نے آخری گیند پر باؤنڈری لگا کر ٹیم کو کامیابی دلادی۔
کرکٹرز اور صارفین نے آن فیلڈ امپائر کے فیصلوں کو کیسے دیکھا؟
میچ کے دوران اور ختم ہونے بعد امپائر کے ان دو فیصلوں سے متعلق سوشل میڈیا پر خاصی بحث ہوئی۔
سابق آسٹریلوی اسپنر بریڈ ہوگ نے اپنے ٹویٹ میں اسکوئر لیگ سے لی گئی وراٹ کوہلی کی تصویر شیئر کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر فیلڈنگ ٹیم کو آن فیلڈ امپائر کے فیصلے سے مسئلہ تھا تو انہوں نے تھرڈ امپائر سے رجوع کیوں نہیں کیا؟
اسی ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب فری ہٹ پر وراٹ کوہلی بولڈ ہوگئے تھے تو گیند کو ڈیڈ کیوں نہیں قرار دیا گیا؟ اور انہیں تین رنز کیوں بنانے دیے گئے۔
بریڈ ہوگ کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے گلوکار و اداکار علی ظفر نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ قانون کیا ہے لیکن اس تنازع کی چھان بین ہونی چاہیے۔
معروف کامیڈین ارسلان نصیر نے بھارت کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور کوہلی نے اچھا تو کھیلا لیکن وہ نو بال نہیں تھی۔
پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان جویریہ خان نے بھی ارسلان نصیر جیسی ہی ایک ٹویٹ کی۔
ٹوٹر صارف فرید خان نے کہا کہ امپائرز نے گیند باؤنڈری سے باہر جانے کے بعد اسے نوبال قرار دیا۔
آن فیلڈ امپائر کا کوئی فیصلہ غلط نہیں تھا: کرکٹ کی بائیبل وزڈن کی رائے
آن فیلڈ امپائز نے وراٹ کوہلی کو بولڈ ہونے کے بعد بھاگنے سے روکا کیوں نہیں؟ یہ سوال ہر اس کرکٹ صارف کے دماغ میں تھا جو پاکستان کی ٹیم کو سپورٹ کر رہا تھا۔ لیکن اگر کرکٹ کے قوانین یا ٹورنامنٹ کے قواعد و ضوابط (پلیئنگ کنڈیشنز)پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وراٹ کوہلی کو قانون کا پتا تھا۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ قواعد و ضوابط کی شق 20 کے مطابق "کسی بھی گیند کو صرف اس صورت میں ڈیڈ بال قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ وکٹ کیپر یا بالر کے ہاتھ میں آجائے، اس کی باؤنڈری اسکور ہوجائے یا بیٹس مین آؤٹ ہوجائے۔"
اس قانون میں یہ بھی درج ہے کہ اگر گیند کسی کھلاڑی یا امپائر کے کپڑوں میں پھنس جائے یا اسپائڈر کیم یا اس کے تار سے ٹکراجائے تب ہی اسے ڈیڈ قرار دیا جاسکتا ہے۔
پاکستانی اننگز کے دوران بلے باز شان مسعود کی لگائی ہٹ اسپائڈر کیم کی وجہ سے کھلاڑیوں کو نظر نہیں آئی جسے امپائرنے ڈیڈ بال قرار دیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب ہر کوئی اپنے انداز میں اس قانون یا پلیئنگ کنڈیشن کی تشریح کررہا تھا کرکٹ مبصر ڈاکٹر نعمان نیاز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے شائقین کو بتایا کہ اصل میں فری ہٹ پر آؤٹ ہونے پر قانون کیا کہتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر فری ہٹ پر بلے باز کیچ آؤٹ ہوتا ہے تو بھاگنے والے رنز اس کے اسکور میں جمع ہوجائیں گے۔ اگر گیند اس کے بلے سے لگ کر وکٹ پر لگتی ہے اور وہ رنز بناتا ہے تو وہ بھی اسی کے اسکور کا حصہ بنیں گے۔ تاہم اگر وہ بغیر ایج لگے بولڈ ہوتا ہے اور پھر رنز کے لیے بھاگتا ہے تو انہیں فاضل رنز تصور کیا جائے گا۔
دوسری جانب کرکٹ کے معتبر میگزین 'وزڈن' کی ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہوئے بین گارڈرنر کا کہنا تھا کہ "محمد نواز کی پھینکی ہوئی ویسٹ ہائی گیند کو چیلنج کرنا اس لیے ناممکن تھا کیوں کہ قواعد و ضوابط اس کی اجازت نہیں دیتے۔
اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا کہ تھرڈ امپائر صرف فرنٹ فٹ نو بال ہوجانے کی صورت میں مداخلت کرسکتا ہے۔ ویسٹ ہائی نوبال کے معاملے میں نہیں۔ اس لیے امپائرز کو الزام دینا درست نہیں ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وراٹ کوہلی اپنی کریز میں کھڑے بھی رہتے تب بھی گیند ان کی ویسٹ سے اونچی ہوتی اور اسی لیے لیگ امپائر نے اسے نوبال قرار دیا۔
انہوں نے وکٹ سے لگ کر تھرڈ مین کی جانب جانے والی گیند کو ڈیڈ بال نہ قرار دینے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ محمد رضوان کا احتجاج درست نہیں تھا۔ پلیئنگ کنڈیشنز میں صاف صاف درج ہے کہ کوئی بھی اسٹرائکر صرف ان قواعد کی رو سے آؤٹ ہوسکتا ہے جو ایک نو بال پر اپلائی ہوتی ہیں۔
ان کے بقول میگا ایونٹ کے قواعد و ضوابط میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وکٹ گر جانے کی صورت میں بال کو ڈیڈ قرار دے دیا جائے گا بلکہ یہ درج ہے کہ بلے باز کے آؤٹ ہونے کی صورت میں ہی گیند ڈیڈ قرار دی جائے گی۔
اپنے تبصرے میں انہوں نے شائقین کی توجہ بھارتی کھلاڑی پٹیل کے رن آؤٹ کی طرف بھی دلائی جن کے آؤٹ ہونے پر نہ تو مخالف کپتان بابر اعظم کو یقین تھا نہ ہی وکٹ کیپر محمد رضوان کو۔ کیوں کہ محمد رضوان نے بابر اعظم کی پھینکی ہوئی تھرو کو پکڑے بغیر وکٹ گرادی تھی۔ لیکن ری پلے میں نظر آیا کہ ان کے ہاتھ سے پہلے گیند وکٹ سے ٹکراگئی تھی۔
بین گارڈنر کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر بھی اعتراض کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ امپائر کے فیصلے کو سب ہی نے تسلیم کیا۔ اسی طرح دیگر فیصلوں پر بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے دونوں ٹیموں کے ساتھ ساتھ امپائرز بھی ایک اچھے میچ کا حصہ تھے۔