پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اب بیانات کی حدود سے آگے نکل چکی ہے۔ بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں فوجیوں کی ایک بس پر حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا تھا، جس کے بعد سے ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ان دونوں ملکوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
اس حملے کو بنیاد بنا کر بھارت نے پیر اور منگل کی رات پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جس کے جواب میں پاکستان نے بدھ کی صبح بھارت کے مگ طیارے کو مار گرا کر دیا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ دونوں ملکوں کو اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئں۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ دونوں ملک جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پڑوسی ملکوں کے درمیان صورت حال معمول پر لانے کے لیے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سن 1965 کی جنگ میں حصہ لینے والے برگیڈئیر ریٹائرڈ یعقوب علی ڈوگر کہتے ہیں کہ عالمی برادری کو بھارت کے جنگی جنون کو سامنے رکھنا چاہیے تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بریگیڈئر ریٹائرڈ یعقوب ڈوگر نے کہا کہ ناگاساکی اور ہیروشیما کے بعد سے نیوکلیئر جنگ تو نہیں ہوئی۔ لیکن پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک ہیں۔ اگر نیوکلئیر وار ہوتی ہے تو اِس کے نتیجے میں 20 لاکھ افراد ہلاک اور کم و بیش پچاس سے ساٹھ لاکھ شہری متاثر ہو سکتے ہیں۔
“عالمی برادری کو، سلامتی کونسل اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو حرکت میں آنا چاہیے ورنہ یہ چیز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دو ملک ہیں جو آپس میں بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہیں تو کسی تیسری طاقت، سارک ممالک یا کسی اور کو درمیان میں آنا چاہیے تو دونوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر جنگ بڑھتی ہے یا نیوکلئیر کی طرف جاتے ہیں تو اِس سے بہت سے ملک متاثر ہوں گے”۔
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سمجھتے ہیں کہ بھارت کی مودی سرکار
کو تحمل کا مظاہر کرنا چاہیے کیونکہ جنگوں سے انتخابات نہیں جیتے جاتے۔ ماضی
میں ممبئی حملوں کے بعد من موہن سنگھ انتخابات ہار گئے تھے، کیونکہ وہ بھارت کے عوام کو مطمئن نہیں کر پائےتھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو وہ بھارت کے حساب سے نہیں بلکہ پاکستانی کمانڈرز کے طریقے سے
لڑی جائے گی۔
“اِس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے پاس زیادہ بڑی فوج ہے اور بڑی معیشت ہے
لیکن اب پاکستان سن 65 اور 71 والی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان نے جنگ لڑنے اور جیتنے میں خاصی مہارت حاصل کر لی ہے۔ دونوں ملکوں کے نیوکلئیر جنگ
کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیئے اور روایتی طریقے سے بھی جنگ ہوئی تو اُس کا بہت نقصان ہو گا اور وہ طویل ہو جائے گی”۔
سینیر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی ملک طاقت
کے استعمال سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا ہے۔ بڑی طاقتوں کو بھی ایک نہ ایک دن مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید تلخی بڑہی اور وہ جنگ کی طرف گئے تو دونوں ملکوں کی معیشت بری طرح متاثر ہو گی اور اِس کا اثر کئی برسوں تک رہے گا۔
“بھارت ایک بڑا ملک ہے لیکن افسوس وہ ہمیشہ چھوٹے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جنگ
کی صورت میں پاکستان کا جو نقصان ہو گا وہ تو ہو گا ہی، لیکن بھارت کو اِس کا خمیازہ زیادہ بھگتنا پڑے گا کیونکہ اُس کی معیشت بڑی ہے”۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں 14 فروری کو بھارتی افواج کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 44 اہل کاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کی جارہی ہے۔ جس کے بعد بھارت نے یک طرفہ طور پر پاکستان کا موسٹ فیورٹ نیشن کا اسٹیٹس ختم کرتے ہوئے پاکستانی مصنوعات پر 200 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ اِس واقعے کے بعد سے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تجارت بھی بند ہے۔