پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی مردم و خانہ شماری کا آغاز بدھ کی صبح ہوا اور یہ عمل تقریباً ڈھائی ماہ تک جاری رہے گا۔
19 سال کے بعد ملک کی آبادی کی صحیح تعداد جاننے کے لیے شروع کیے گئے اس عمل کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 15 مارچ کو شروع ہونے والا پہلا مرحلہ 15 اپریل تک جاری رہے گا جس کے بعد دس دن کا وقفہ ہو گا اور دوسرا مرحلہ 25 اپریل سے شروع ہو کر 25 مئی تک جاری رہے گا۔
پہلے مرحلے کے پہلے تین روز میں خانہ شماری کی جائے گی۔ پورے ملک کو ایک لاکھ 68 ہزار بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس عمل میں مختلف محکموں کے ایک لاکھ 18 ہزار کارکنان حصہ لے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں عمل میں معاونت اور سکیورٹی کے لیے فوج کے دو لاکھ اہلکار بھی شریک ہیں۔
پہلے مرحلے میں ملک کے 63 اضلاع میں مردم و خانہ شماری کی جائے گی جس میں پنجاب کے 16، سندھ کے آٹھ، خیبرپختونخواہ کے سات، بلوچستان کے 15، سات قبائلی ایجنسیوں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے پانچ، پانچ اضلاع شامل ہیں۔
باقی ماندہ علاقوں میں یہ عمل دوسرے مرحلے میں شروع ہو گا۔
مردم شماری کے لیے گھروں میں آنے والے اہلکار گھر کے سربراہ کے نام اور پھر یہاں رہنے والوں کا اندراج کریں گے۔ اس کے لیے گھر کے سربراہ کا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے اور اگر وہ دستیاب نہ ہو تو انھیں کوئی بھی ایسی دستاویز فراہم کرنا ہو گی جس سے ان کی شناخت کی تصدیق ہو سکے۔
حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح معلومات کو چھپانے یا غط بیانی کرنے والے کو پچاس ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس عمل کا باقاعدہ آغاز صدر ممنون حسین نے کراچی میں کیا جس کے بعد سرکاری ٹی پر قوم کے نام اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ تمام لوگ اس مردم و خانہ شماری کے عمل کی بطریق احسن انجام دہی میں اپنا کردار ادا کریں۔
"ہماری قومی ضروریات کیا ہیں، معیشت کن خطوط پر پروان چڑھنی چاہیے، عوام کو صحت و تعلیم اور روزگار کے حقوق کیسے ملیں گے ان تمام سوالوں کا جواب قومی آبادی کے درست اعدادوشمار میں ہی مضمر ہے۔ آئے قومی آبادی کے درست اعدادوشمار جمع کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ بنائے۔"
پہلی بار ملک میں خواجہ سرا برادری کو بھی مردم شماری میں شمار کیا جا رہا ہے جسے خواجہ سراؤں کی طرف سے خوش آئند تو قرار دیا جا رہا ہے لیکن ان کی طرف سے بعض تحفظات بھی سامنے آئے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن بندیا رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر اس عمل میں مردم شماری کے لیے جانے والوں کے ساتھ خواجہ سراؤں کا نمائندہ بھی شامل ہوتا تو مناسب تھا۔
"جس طرح دوسرے محکموں کے لوگ جا رہے ہیں مردم شماری کے لیے اگر ہر علاقے سے ایک خواجہ سرا کو بھی ساتھ رکھ لیا جاتا تو وہ زیادہ آسانی سے بتا سکتا کہ یہاں کتنے خواجہ سرا ہیں اور اس سے ہمارے دل کو تسلی بھی ہو جاتی۔"
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح قومی شناختی کارڈ میں خواجہ سراؤں کی جنس کی نشاندہی کی گئی ہے اسی طرح اگر مرد شماری کے فارم میں عورت اور مرد کے خانوں کے ساتھ خواجہ سرا بھی شامل کیا جاتا تو بہتر تھا۔
اس وقت تیسرے خانے کو (ایکس) کے طور پر رکھا گیا ہے جس میں خواجہ سراؤں کا اندراج کیا جائے گا۔
ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔ آئین کے مطابق ہر دس سال بعد یہ عمل ضروری ہے لیکن بوجوہ 19 سالوں کے دوران ایسا نہ کیا جا سکا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے اس بارے میں از خود نوٹس کے بعد گزشتہ سال ہی ملک میں مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔