بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے بعض حلقے صوبے میں پندرہ مارچ سے شروع ہونے والی مردم و خانہ شماری کے لیے تعینات عملے کے تحفظ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم صوبائی حکام کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور سیکورٹی اداروں کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے اب صوبے کے 95 فیصد علاقے میں امن قائم ہو چکا ہے۔
صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ سرکاری تنصیبات اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں پر حملے کرنے والے بیشتر شرپسندوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے جب کہ کئی اہم کمانڈروں سمیت بڑی تعداد میں عسکریت پسند حکومت کی عمل داری قبول کر چکے ہیں، جس سے اُن کے بقول امن و امان کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے۔
صوبائی حکومت کے تر جمان انوارلحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ شفاف مردم شماری کے لیے حکومت نے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ ’’جہاں تک سیاسی جماعتوں کے تحفظات کا تعلق ہے ایک ذمہ دار حکومت کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عمل صرف پاکسانیوں کو شمار کرنے کے لیے ہے۔ اس ایک لائن کے بیان سے ہم نے اپنی حکومت کی پالیسی واضح کردی ہے جو غیر پاکستانی ہیں وہ افغان ہو سکتے ہیں اس کو پشتون بلوچ کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے وہ ایرانی بلوچ بھی ہوسکتے ہیں ان (غیر ملکیوں) میں سے کسی کو بھی شمار نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘
مردم و خارجہ شماری کے لیے رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور صوبے کے 15 اضلاع میں 15 مارچ سے پندرہ اپریل جب کہ دوسرے مرحلے میں دیگر 17 اضلاع میں 25 اپریل سے25 مئی تک مردم وخانہ شماری کا عمل مکمل کیاجائے گا ۔
مردم شماری کے جوائنٹ کمشنر محمد اشرف آرائیں نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بلوچستان کو خانہ و مردم شماری کے لیے سات ہزار عملہ اور اتنی ہی تعداد میں فوج اور فرنٹیرکور کے اہلکار اُن کی حفاظت پر مامور ہوں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر مقامی انتظامیہ فوج کے مزید جوانوں کو طلب کر سکتی ہے۔ محمد اشرف آرائیں نے بتایا کہ پہلے تین دنوں میں خانہ شماری اور اس کے بعد لوگوں کو شمار کیا جایا جائے جب کہ دوسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد تمام اعداد و شمار کو یکجا کر نے کے لیے ایک مہینے کا وقت درکار ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبے کے لوگوں سے اُن کی آمدن کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ ’’تعلیم گھر کے افراد، اُن کے کمروں کی تعداد، بجلی گیس، یا ایندھن کے دوسرے ذرائع کے بارے میں پوچھا جائے گا اس کے علاوہ جو لوگ ایک علاقے سے دوسرے میں منتقل ہو گئے ہیں ہم کو شش کریں گے کہ اُن کو اُسی ضلع میں شمار کر سکیں جہاں وہ مقیم ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ 1998 میں کی جانے والی مردم شماری کا بلوچستان کی ایک پشتون سیاسی قوم پرست جماعت نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس پر دیگر سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید اور خود مذکورہ پارٹی کے رہنماوں نے پیشمانی کا اظہار کیا تھا۔ محکمہ شماریات نے اُس وقت صوبے کی کُل آبادی 66 لاکھ کے قریب بتائی تھی۔
وفاقی وزارت شماریات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مردم و خانہ شماری کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے اٹھارہ ارب پچاس کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے جس میں سے چھ ارب سیکورٹی اداروں اور ساڑھے چھ ارب ٹرانسپورٹ اور چھ ارب انتظامی اُمور کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
مزید براں مردم و خانہ شماری کا غلط اندراج کرانے والوں کے لیے چھ ماہ قید اور پچاس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔