رسائی کے لنکس

خواتین پر تیزاب حملوں کے خلاف قانون کی پذیرائی


خواتین پر تیزاب حملوں کے خلاف قانون کی پذیرائی
خواتین پر تیزاب حملوں کے خلاف قانون کی پذیرائی

پاکستان میں تیزاب پھینک کر چہرہ مسخ کر دینے جیسے جرم کے شکار افراد نے تیزاب پھینکنے کے جرم میں ملوث شخص کے لیے کڑی سزاؤں کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

تیزاب پھینک کر مخالفین خصوصاً خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف قانون کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد رواں ہفتے سینٹ نے بھی اتفاق رائے سے اس بل کی منظوری دے دی جس کے بعد ایسے جرائم میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی جا سکیں گی۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور تیزاب سے حملوں کا نشانہ بننے والی خواتین نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ نیا قانون ملک میں ایسے جرائم کے سدباب میں مددگار ثابت ہو گا۔

سنیٹ میں اس حوالے سے قانون کی منظوری کے وقت مہمانوں کے لیے مخصوص گیلری میں تیزاب سے جھلس جانے والے افراد اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی موجود تھے۔ جنہوں نے قانون کی منظوری پر ایوان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

تیزاب سے کئے گئے ایسے ہی ایک حملے کی شکار خاتون نائلہ فرحت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 2003 ء میں ان کے اسکول ٹیپچر نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ان کے چہرے کو تیزاب پھینک کر مسخ کر دیا تھا انھوں نے کہا کہ وہ ہمت ہارنے کے بجائے اسی دن سے اس گھناؤنے جرم کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔ ’’میں بہت خوش ہوں کہ یہ بل پاس ہوا ہے اور خواتین کو ان کا حق ملے گا اور دوسری خواتین کے لیے بھی آسانیاں پیدا کر رہی ہیں۔‘‘

تیزاب سے متاثر ہونے والی ایک اور خاتون نصرت پروین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا ’’آج ہم بہت شکر گزار ہیں ان عورتوں کے ان بھائیوں کے جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا ہے ہم خوش ہیں ہمیں انصاف ملا ہے ہمیں ہمارا حق ملا ہے۔‘‘

پارلیمان سے منظور شدہ قانون کے تحت تیزاب پھینکنے کے جرم کے مرتکب افراد کو کم از کم 14 سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جا سکے گی ۔ جبکہ مجرم کو 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سینیٹر نیلوفر بختیار نے تیزاب پھینکنے کے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون کی منظوری کے وقت ایوان بالا میں اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ پاکستان میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد اور بچے بھی تیزاب سے کئے جانے والے حملوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ملک بھر میں 2009 کے دوران تیزاب پھینکنے کے 53 واقعات سامنے آئے تھے لیکن ان کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بعد اس سال اب تک 150 افراد ایسے تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اس نئے قانون کی منظوری کو سراہتے ہوئے سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں نے پارلیمنٹ کے باہر ایک ریلی بھی نکالی جس میں خواتین کے تحفظ کے لیے کی جانے والی قانون سازیوں کو خوش آئند قراد دیا گیا۔

مزید برآں وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نئی قانون سازی سے خواتین کو تحفظ ملے گا اور حکومت خواتین کے مسائل کے حل کے لیے پولیس اسٹیشن کے موجودہ نظام کو نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا خواتین کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا ہے جو خواتین پولیس اسٹیشنز کی کارکردگی مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG