رسائی کے لنکس

تین لاکھ طلبہ خیموں اور کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام کا کہنا ہے کہ فنڈز کی قلت کے باعث سکولوں کی عدم تعمیر کی وجہ سے تین لاکھ طلبہ کھلے آسمان تلے اور بوسیدہ خیموں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے ادارے، 'ایرا' سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے ذمے لیے گئے ان 1300 سے زائد سکولوں کی تعمیر مکمل کرے، جن کی عدم تکمیل کے باعث تین لاکھ طلبہ شدید موسم میں کھلے آسمان نیچے اور خیموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس سے قبل 'ایرا' کی طرف سے پاکستانی کشمیر کی حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ زلزلے میں تباہ ہونے والے زیر تعمیر سینکڑوں سکولوں سمیت نامکمل منصوبوں کی تکمیل اپنے وسائل سے کرے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے ادارے کے ڈائرکٹر عابد غنی میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیر تکمیل اور نئے سکولوں کی تعمیر کے لیے 23 ارب روپے درکار ہیں، جو پاکستانی کشمیر کی حکومت کے لیے مہیا کرنا ناممکن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زلزلے میں تباہ ہونے والے سکولوں کی تعمیر وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سکولوں کی عدم تعمیر کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں بچے داخل کروانے کی شرح میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ نامکمل اور نئے سکولوں کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈ دیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ان سکولوں کی تعمیر کے لیے غیر ملکی تعاون حاصل کرنا ہوگا۔

حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ تر دور دراز دیہی علاقوں میں سکولوں کی تعمیر مکمل نہیں کی جا سکی، جو ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں۔

سرحدی ضلع ہٹیاں بالا جہلم ویلی کے ایک دیہات درہ بٹنگی میں قائم گورنمنٹ ہائی سکول کے سینکڑوں بچوں کو سخت سردی کے موسم میں کھلے آسمان کے بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔

بٹنگی ہائی سکول کے بیڈ ماسٹر قیوم عثمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے سکول کی تعمیر کا کام التوا کا شکار ہے، جس کے باعث طلبہ اور اساتذہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سیاسی راہنماؤں کی طرف سے مختلف اوقات میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں زلزلہ متاثرین کے 56 ارب روپے دیگر منصوبوں میں خرچ کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے؛ اور اس رقم کو زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے خرچ کرنے کا مطالبہ بھی آتا رہا ہے۔ تاہم، وفاقی وزارت خزانہ کی طرف سے اس کی تائید یا تردید نہیں کی گئی۔

XS
SM
MD
LG